اسلام آباد

چوہدری نثار پر پرویز مشرف کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کا الزام

اسلام آباد: سابق گورنر پنجاب اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں نمائندگی کرنے والے سردار لطیف کھوسہ نے الزام لگایا ہے کہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کا محفوظ راستہ فراہم کیا۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف بے نظر قتل کیس میں مشتبہ افراد میں سے ایک تھے لیکن تین سال بعد وزارت داخلہ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے بعد وہ گزشتہ برس مارچ میں ملک سے چلے گئے۔

واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں اسی مقدمے میں راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 5 مشتبہ افراد کو بری کردیا تھا لیکن ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سعود عزیر اور سینئر سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) پولیس خرم شہزاد کو مجرم قرار دیا تھا۔

دوسری جانب آصف علی زرداری کی جانب سے اے ٹی سی کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کے راولپنڈی بینچ میں چیلنچ کیا گیا، جس کی سماعت گزشتہ روز ہوئی۔

جسٹس مظہر علی اکبر نقوی اور جسٹس طارق عباسی پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے گزشتہ روز اس معاملے کو سنا اور ٹی ٹی پی کے مبینہ ملزمان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں لطیف کھوسہ نے اے ٹی سی کے فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل ایک ماہ میں مکمل کیا جاسکتا تھا لیکن عدالت نے فیصلہ سنانے میں 10 سال لگا دیئے۔

انہوں نے کہا کہ پانچوں مشتبہ افراد کے خلاف کافی ثبوت تھے لیکن عدالت نے انہیں بری کردیا، انہوں نے الزام لگایا کہ پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش کی اور جب ان کا ٹرائل مکمل ہونے کا وقت قریب آیا تو سابق وزیر داخلہ نے سابق جنرل کو ملک سے باہر جانے کا محفوظ راستہ فراہم کردیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ چوہدری نثار نے اس معاملے پر اپنی ذمہ داری عدالتوں پر ڈالنے کی کوشش کی جبکہ اس حوالے سے کوئی عدالتی حکم بھی نہیں دیا گیا اور عدالت نے کبھی وزارت داخلہ سے پوچھا کہ مشرف کو باہر کیوں جانے دیا۔

انہوں نے کہا کہ جب مشرف ملک چھوڑ کر گئے تو وہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں غداری کیس کا سامنا کر رہے تھے اور لال مسجد کے خطیب غازی رشید کے ساتھ وہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت میں بھی مطلوب تھے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے انہیں ان مقدمات میں اشتہاری قرار دیا اور ان کی جائیداد ضبط کرنے کے حوالے سے کارروائی کے آغاز کا کہا تھا۔

یاد رہے کہ 8 اپریل 2013 کو سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی تک وہ پاکستان چھوڑ کر نہیں جائیں۔

عدالت کے احکامات کو مانتے ہوئے وزارت داخلہ نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا تھا لیکن جون 2014 میں سندھ ہائی کورٹ نے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور 5 رکنی بینچ نے گزشتہ سال مارچ میں وفاقی حکومت کی اپیل مسترد کردی تھی۔

جس کے بعد وزارت داخلہ نے مشرف کا نام اس فہرست سے نکال دیا تھا۔

بے نظر بھٹو قتل کیس میں پروسیکیوشن کے مطابق بے نظیر بھٹو کی امریکی لابسٹ مارک سیگل کو کئی گئی ای میل پرویز مشرف کو قتل سے منسلک کرتی ہے۔

خیال رہے کہ مارک سیگل نے دعویٰ کیا تھا کہ 25 ستمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی، جسے بعد میں انہوں نے پرویز مشرف کی جانب سے بہت بری کال بیان کیا تھا۔

اپنے بیان میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق آرمی چیف نے بے نظیر بھٹو کو خبر دار کیا تھا کہ ان کی حفاظت (مشرف اور بے نظیر) کے تعلقات پر منحصر ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close