اسلام آباد

پاکستان نے امن قائم کرلیا اب افغانستان کی باری ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

اسلام آباد: پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن ہم نے اپنی طرف امن قائم کر لیا ہے اور اب افغانستان کو بھی امن قائم کرنا ہوگا۔

میجر جنرل آصف غفور کا نجی ٹی وی کے ایک انٹرویومیں کہنا تھا کہ امریکی صدر کے بیان سے متعلق حکومت پاکستان جواب دے چکی ہے لیکن پاکستان کے بغیر امریکا القاعدہ کو شکست نہیں دے سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ فاٹا کی 7 ایجنسیوں میں طالبان کا اثرورسوخ تھا جب کہ سوات آپریشن مختلف تھا کیونکہ وہاں آبادی ہے اور شمالی وزیرستان کے آپریشن سے قبل ایک آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف تمام آپریشن مختلف تھے لیکن پاکستانی قوم نے ثابت کیا ہم پرعزم قوم ہیں، پاکستان نے اس جنگ میں 100 فیصد نتائج دیے۔

انہوں نے کہا کہ آج کے پاکستان کی افواج مختلف ہے، ہمارے جوان اور جنرل نے جسمانی طور پر جنگ میں حصہ لیا ہے۔ ضرب عضب تک جتنے آپریشن کیے وہ عملی تھے اور ہم نے ان علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کیا جبکہ آپریشن ردالفساد انٹیلی جنس بنیادوں پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان جنگ میں پاک فوج کے تمام چیفس نے بہترین کام لیا اور عمومی امن کو پائیدار امن میں بدلنا جنرل باجوہ کا مشن ہے، قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا امن خراب نہیں ہونے دیں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ عملی طور پر تو جنگ ہو چکی ہے لیکن موجودہ مرحلہ مشکل ہے، اب ہماری جنگ ایک اَن دیکھے دشمن کے خلاف ہے اور اُس اَن دیکھے دشمن کو ہمیں ڈھونڈنا اور ختم کرنا ہے۔

افغانستان میں امن

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہم نے اپنی طرف امن قائم کر لیا ہے اور اب افغانستان کو بھی امن قائم کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کے لیے کچھ اقدام پاکستان اور کچھ افغانستان کو کرنے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت خود کہہ چکی ہے کہ وہ افغانستان میں موجود ہے، اگر دہشتگردوں کی قیادت پاکستان میں ہے تو انٹیلی جنس شیئرنگ کی جائے ہم کارروائی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری 900 چیک پوسٹیں اور 2 لاکھ سے زائد فوج افغان سرحد کے ساتھ پاکستانی علاقے میں موجود ہے، افغان سرحد پرفوج تعینات کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سرحد پار سے حملوں کا خطرہ موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی صورت حال میں فوج کم کر کے کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے، اگر افغانستان سے خطرہ ختم ہو جائے تو آج ہی اپنی 50 فیصد فوج واپس بلا لیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ جڑی اپنی 2600 کلومیٹر سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے، اگر بارڈر مکینزم طے پا گیا تو سرحد کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بارڈرمینجمنٹ سے متعلق مکینزم پر افغانستان کو دستاویزات بھی بھیجے ہیں، اگر آنے والے سالوں میں بارڈر مینجمنٹ کر لی جائے تو بہت حالات میں بہت بہتری آ جائے گی۔

بھارتی دراندازی

بھارت کی پاکستان مخالف کارروائیوں کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں بھارت کا کردار ہے اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے جاسوس کلبھوشن یادیو کا کیس بھی پوری دنیا کے سامنے ہے کہ کیسے اُس نے پاکستان میں عدم استحکام کی کوشش کی۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 2017 میں بھارت کی سیز فائرکی خلاف ورزیاں بقیہ تمام سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔

فاٹا اصلاحات

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے بہت ساری اصلاحات ہونے والی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور دیگر اداروں کے کرنے والے کام تیزی سے ہونے چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا میں فوج رہے گی کیونکہ عوام کی خواہش ہے کہ فوج وہاں سے نہ جائے۔

بلوچستان کی صورت حال

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بلوچستان کی صورت حال سی پیک کے تناظر میں بہت اہم ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ دو قوموں کے درمیان رشتہ ہے اور بلوچستان میں امن و امان کی خرابی سی پیک کے تناظر میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری تمام تر توجہ بلوچستان کی طرف ہے، ترقیاتی کام مکمل کیے جائیں گے تاکہ صوبے کی عوام میں محرومی نہ ہو۔

ایران اور روس کے ساتھ تعلقات

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایران گئے تو بارڈر منیجمنٹ سے متعلق بات ہوئی اور ایران نے حساس مقامات پر باڑ لگانا شروع کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں استحکام کے لیے ایران کیساتھ رابطے ہیں، ایران بھی چاہتا ہے کہ پاکستان میں استحکام رہے۔

روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ روس کے ساتھ بھی دفاعی تعلقات بڑھے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close