اسلام آباد

امن مذاکرات کی بحالی کی یقین دہانی نہیں کروا سکتے

وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے افغان امن عمل شدید متاثر ہوا ہے۔جمعرات کو دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران مشیرِ خارجہ نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے میں ملا منصور کی ہلاکت کے بعد یہ یقین دہانی نہیں کروائی جاسکتی کہ افغان امن عمل کے لیے مذاکرات دوبارہ کب شروع ہوں گے

اُنھوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق ملا اختر منصور افغان عمل کے حامی تھے، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ افغانستان میں مصالحت کے لیے چار ممالک کے گروپ کے اجلاس میں اُن کے حمایتی شریک ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ 18 مئی کو چارملکی مذاکرات میں طے پایا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے سٹیک ہولڈروں کے ساتھ سیاسی بات چیت کو اہمیت دی جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن لانے کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں کیونکہ گذشتہ 15 سال سے اس علاقے میں جنگ جاری ہے لیکن امن ابھی تک قائم نہیں ہوا۔

اُنھوں نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے افغانستان مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا اور خصوصاً ایسے حالات میں جب افغانستان میں ایک بڑی تعداد میں شدت پسند گروپ موجود ہیں۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ تمام اشارے ظاہر کر رہے ہیں کہ ملا اختر منصور ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم پاکستانی حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد کی جائے گی۔

اُنھوں نے کہا کہ جب تک ڈی این اے کی رپورٹ نہیں آ جاتی، اس وقت تک ملا اختر منصور کی لاش کسی کے حوالے نہیں کی جائے گی۔

مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ڈرون حملے پر امریکہ سے احتجاج کیا ہے اور اس معاملے کو اقوام متحدہ میں بھی اُٹھایا جائے گا۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ لاکھوں افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی پاکستانی سلامتی کے لیے خطرہ ہے کیونکہ شدت پسند مہاجرین کے کیمپوں کو اپنی پناہ گاہیں بنا لیتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی اشد ضروری ہے۔

مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد کی نگرانی بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور افغانستان کی حکومت کو بھی اس عمل میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close