اسلام آباد

ٹرین پہ اربوں لگادیئے جبکہ شہریوں کو پانی زہریلا مل رہا ہے، چیف جسٹس نے پنجاب حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اورنج ٹرین پر اربوں روپے لگادیئے اور لاہور کے شہریوں کو زہریلا پانی مل رہا ہے، ادھر دھیان نہیں کیا ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آلودہ پانی دریاؤں میں پھینکنے کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لاہور کے شہریوں کو پینے کیلئے گندہ اور زہریلا پانی مل رہا ہے، 10 سال سے حکومت مسلسل کام کررہی ہے اب تک کیا کیا؟ کارکردگی کا اشتہار چلاتے ہیں، جو نہیں کیا اس کا اشتہار بھی چلائیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ لوگوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے، اورنج ٹرین پر اربوں روپے لگا دیئے، ادھر دھیان نہیں کہ کیا ہورہا ہے، اورنج ٹرین بنائیں، موٹروے بنائیں، عوام کی صحت کی طرف بھی توجہ دی جائے، لگتا ہے عوامی صحت حکومت کی ترجیح ہی نہیں، وزیراعلیٰ، چیف سیکریٹری اور واسا کے لوگ بتائیں کہ اس طرف توجہ کیوں نہیں دی جارہی۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ میں اسپتالوں میں کیوں نا جاؤں، کسی نے تو ان لوگوں کا حال دیکھنا ہے، لوگ کس طرح کراہ رہے ہیں، کتنی بار وزیراعلیٰ یا افسر اسپتالوں میں گئے ہیں، جن کا یہ کام ہے وہ نہیں کریں گے کوئی تو کرے گا، پاکستان میں گڈ گورننس کا یہ حال ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ اورنج ٹرین پر کتنے لگیں گے، اس پر چیف سیکریٹری نے بتایا کہ منصوبے پر 180 بلین روپے لاگت آئے گی۔

چیف سیکریٹری کے بتانے پر اعتزاز احسن نے لقمہ دیا 235 بلین روپے خرچ آئے گا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ حالت ہے کہ ڈیٹ شیٹ پر بھی وزیراعلیٰ کی تصویریں چھپتی ہیں، کارکردگی دکھانی ہے تو کام کرکے دکھائیں، تصویریں چھپوا کر نہیں، شہباز شریف کو تصویریں چھپوانے کا زیادہ شوق ہے تو ہمیں پیش ہو کر وضاحت کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یاد رکھیں ہم نیب کو پنجاب حکومت کے اشتہارات کی تحقیقات کا حکم دے سکتے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ پاکستان قرضوں میں ڈوب چکا ہے، قرضوں میں ڈوبی قوم کا پیسہ حکمران ذاتی تشہیر پر خرچ کررہے ہیں، قرضوں کی صورتحال دیکھ کر عدالت پریشان اور خوفزدہ ہے، اب بھی وقت ہے حکومتیں اپنی ترجیحات درست کرلیں۔ سپریم کورٹ نے صاف پانی کے منصوبوں کے پی سی ون طلب کرتے ہوئے 23 مارچ تک جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 31 مارچ کو دوبارہ سماعت کریں گے،تمام ڈیٹا ریکارڈ پر ہونا چاہیے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close