اسلام آباد

نقیب اللہ محسود قتل کیس، راو انوار سپریم کورٹ میں پیش، نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

اسلام آباد: نقیب اللہ قتل کیس میں معطل سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے۔ عدالت نے تحقیقات کیلئے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا۔ معطل ایس ایس پی کا شناختی کارڈ اور بینک اکاونٹ بحال کرنے کی درخواست منظور کرلی گئی۔ تفصیلات کے مطابق، معطل ایس ایس پی راو انوار نے آخر کار سپریم کورٹ کے آگے سرنڈر کردیا، جڑواں شہروں میں موبائل بندش کا سہارا لیتے ہوئے راو انوار چپکے سے سپریم کورٹ پہنچے اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے راو انوار سے کہا آپ تو بہت دلیر تھے۔ اتنے دن کہاں چھپ کر بیٹھے رہے؟۔ اب دلیری کیسے ختم ہوگئی۔

راو انوار کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل نے سرنڈر کر دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا راو انوار نے کوئی احسان نہیں کیا، مجھے خطوط لکھنا کوئی اچھا طریقہ نہیں۔ راو انوار کے وکیل نے پرانی جے آئی ٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور استدعا کی کہ نئی جے آئی ٹی بنائی جائے جس میں آئی بی اور آئی ایس آئی کے لوگ شامل کیے جائیں۔ راو انوار کے وکیل نے حفاظتی ضمانت کی درخواست جمع کرائی جو سپریم کورٹ نے مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پہلے ہم راو انوار کو یقین دہانی کراچکے ہیں انہوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا۔

سپریم کورٹ نے اے آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی نئی جے آئی ٹی قائم کردی۔ نئی جے آئی ٹی میں اے آئی جی اسپیشل برانچ ولی اللہ ڈھل، ڈی جی ساوتھ محمد آزاد احمد خان، ڈی آئی جی ایسٹ ذوالفقار لاڑک اور ایس ایس پی کورنگی ڈاکٹر رضوان شامل ہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ راو انوار کو کوئی بھی اتھارٹی عدالتی اجازت کے بغیر کراچی منتقل کرسکتی ہے، تحقیقات اور کیس کا فیصلہ ہونے تک آئی جی سندھ ذاتی طور پر راو انوار کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نقیب اللہ کے والد اور ان کے چچا راو انوار کی زندگی کے لیے مشکلات پیدا نہیں کریں گے، تحقیقات مکمل ہونے تک راو انوار کا نام ای سی ایل میں شامل رہے گا، عدالت نے راو انوار کے وکیل کی درخواست پر توہین عدالت کا جاری کردہ نوٹس واپس لے لیا۔ عدالت نے راو انوار کا شناختی کارڈ اور بینک اکاونٹ بحال کی درخواست بھی منظور کرلی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا اس وقت تک ہر شخص عدالت کے سامنے معصوم ہے۔ تحقیقات شفاف ہونی چاہئیں اور میڈیا سمیت کوئی بھی ادارہ یا عدالت تحقیقات پر اثرانداز نہیں ہوگی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close