اسلام آباد

میرے نام پر جعلی بینک اکاؤنٹ فعال ہے، سینیٹر عثمان کاکڑ کا دعویٰ

اسلام آباد: سینیٹ کی فنگشنل کمیٹی برائے علاقائی مسائل کے چیئرمین محمد عثمان کاکڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے نام پر جعلی بینک اکاؤنٹ فعال ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی کے اجلاس کے دوران سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ‘میں نے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کو ایک درخواست دی ہے لیکن تاحال ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو اکاؤنٹ چلا رہا ہے’۔

اجلاس میں ایف آئی اے کی بریفنگ کے دوران بحث جعلی بینک اکاؤنٹ کی جانب مبذول کرائی گئی۔ ایف آئی اے نے آگاہ کیا کہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی ترسیل کا سراغ لگایا گیا ہے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں روزانہ سائبر کرائم کے سیکڑوں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں لیکن اس کے حل کے لیے ایف آئی اے بمشکل کوئی قدم اٹھاتی ہے اور ملزم کو گرفتار کرتی ہے۔

ایف آئی اے نے کمیٹی کو بتایا کہ جو لوگ دوسروں کے پاسپورٹ یا چوری کے پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں اس کو ‘ہدفی کیسز’ کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر ان جعلی یا چوری شدہ پاسپورٹس کا خود بخود سراغ لگاتا ہے جس کے بعد کیس کی نوعیت کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔

تاہم انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ انسانی اسمگلنگ زیادہ تر زمینی یا سمندری راستوں سے ہوتی ہے۔

اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین نے سوال کیا کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس کے ملزم پولیس افسر راؤ انوار کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا باوجود اس کے کہ ان کا پاسپورٹ اسلام آباد ائرپورٹ میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل تھا۔

سینیٹ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف آئی اے ای سی ایل میں شامل افراد کو نہ صرف روک سکتی ہے اور نہ ہی گرفتار کرسکتی ہے جب تک ان کی گرفتاری کے احکامات نہ دیے گئے ہوں۔ ایف آئی اے عہدیداروں نے دعویٰ کیا کہ گوکہ سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے کے ماتحت ہے لیکن ملزمان کو عدالت کے احکامات کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close