اسلام آباد

حکومت کیجانب سے خادم حسین رضوی کیخلاف بغاوت اور دہشتگردی کا مقدمہ درج

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے تحریک لیبک پاکستان کی سیاست کو قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے پارٹی کے سربراہ خادم حسین رضوی سمیت تمام قائدین کے خلاف دہشت گردی اور بغاوت کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ تحریک لبیک نے جس طرز کی سیاست کا آغاز کیا وہ نہ صرف پاکستانی قانون کے خلاف تھی بلکہ آئین پاکستان کو بھی للکارا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خادم حسین رضوی کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات میں لاہور کے سول لائنز تھانے میں مقدمہ درج کر دیا گیا ہے، افضل حسین قادری کے دوسرے اہم رہنما کے خلاف گجرات، عنایت الحق شاہ کے خلاف تھانہ روات راولپنڈی اور حافظ فاروق الحسن کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات پر مقدمات درج کر دیئے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ تمام لوگ جو براہ راست املاک کو تباہ کرنے میں اور جنہوں نے سڑک پر خواتین کو روک کر بدتمیزی کی، جنہوں نے بسوں کو آگ لگائی اور لگ بھگ 5 کروڑ کا نقصان پہنچایا اس میں تمام متحرک لوگوں کے خلاف متعلقہ تھانوں میں مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بغاوت کی سزا عمر قید ہے، ان کو دہشت گردی اور بغاوت میں 124 پی پی سی میں چارج کیا گیا ہے جس میں ان کے خلاف عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے اور قانون کے مطابق جو سزا ہوگی انہیں دی جائے گی۔ فواد چوہدری نے کہا کہ معاشرے کے لئے اصول ریاست ہی طے کرتی ہے اور ریاست کے اندر تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے یکجا ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 5 نومبر 2017ء سے لے کر 26 نومبر 2017ء تک فیض آباد ایکسچینچ کو بند کیا گیا، لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، عوام کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا گیا، یہ دھرنا ختم ہوا پھر ایک اور احتجاج ہوا، جس میں 5، 7 کروڑ کا صرف سرکاری اور پرائیویٹ لوگوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس پارٹی اور اس کی قیادت کو آئین اور قانون کے اندر رہ کر احتجاج کرنے کی طرف لانے کے لئے حکومت نے پوری کوشش کی۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ابھی ہم نے یہاں سیرت النبیﷺ کانفرنس منعقد کی جہاں دنیا بھر سے آئے علماء کا ماننا تھا کہ جو کچھ یہاں انہوں نے کیا وہ عاشقان رسول نہیں کرسکتے، رحمت عالم کو ماننے والے لوگوں کے املاک اور جانوں کی حفاظت کرنے والے لوگ ہوتے ہیں لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا اس لئے ایک بڑا آپریشن کیا گیا۔

تحریک لبیک پاکستان کے خلاف ہونے والے آپریشن کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس آپریشن میں ریاست کے تمام ادارے، خفیہ ایجنسیوں نے مل کر مشترکہ طور پر حصہ لیا، یہاں پر نہ صرف ریاستی ادارے بلکہ حزب اختلاف کی اہم جماعتیں بھی آن بورڈ تھیں۔ حزب اختلاف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں اپوزیشن اور پاکستان کے میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو ریاست کے ساتھ کھڑے رہے حالانکہ حزب اختلاف کی جماعتوں سے کئی معاملات پر ہمارے سخت اختلافات ہیں اور تلخی موجود ہے لیکن انہوں نے اس سارے میں ساتھ دیا کیونکہ یہ معاملہ سیاست سے بالا تر اور ریاست کا معاملہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاست کے قانون کو اس طرح تہہ و بالا کیا جائے گا اور مذاق بنایا جائے گا، اگر تمام اداروں کو چاہے وہ پارلیمنٹ ہو، آرمی چیف، چیف جسٹس ہوں، ججز ہوں، جرنیل ہوں یا سیاست دان ہوں اگر ان کو اس طرح مذاق بنایا جائے تو ریاست یا معاشرہ نہیں چل سکتا اس لئے ریاست کے ترجمان کی حیثیت سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا مشکور ہوں جنہوں نے اس سارے معاملے میں ساتھ دیا۔

وزیراطلاعات نے کہا کہ اس کارروائی میں پنجاب میں 2 ہزار 899 لوگوں کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا، سندھ میں 139 اور اسلام آباد میں 126 لوگ حفاظتی تحویل میں ہیں جن میں تحریک لبیک کے پیر افضل قادری، خادم حسین رضوی، پیر عنایت الحق شاہ اور فاروق الحسن بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے اندر احتجاج سب کا حق ہے لیکن چند شرپسند عناصر نے ہمارے نظام کو تباہ کرنے کی کوشش کی اس لئے کسی کو جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سابق گورنر سندھ زبیر عمر کی پریس کانفرنس سے متعلق ردعمل جاننے کے لئے صحافی کے سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ میری تو مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے درخواست ہے کہ وہ دو تین سال ٹی وی پر نہ آئیں تاکہ عوام ان کی شکلیں بھول جائیں۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر سخت تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ لیگی رہنما جب بھی ٹی وی پر آتے ہیں تو عوام کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے جوتے اتار دیں۔ پریس کانفرنس کے آخر میں ایک صحافی نے آسیہ بی بی کے حوالے سے سوال کیا کہ کیا آسیہ بی بی ملک سے باہر ہیں؟ جس پر وفاقی وزیر اطلاعات نے واضح جواب دینے کی بجائے صرف اتنا کہا کہ ظاہر ہے کہ آسیہ بی بی کا معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت جو فیصلہ کرے گی اس پر عمل کیا جائے گا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close