اسلام آباد

سپریم کورٹ سے بری 2 بھائیوں کو ایک سال پہلے پھانسی ہو چکی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیکرعینی گواہ کے بیان میں موجود تضادکی بنیاد پر سزائے موت کے2ملزم بھائی بری تو کر دیے لیکن دونوں بھائیوں کو ایک سال پہلے ڈسٹرکٹ جیل بہاولپور میں پھانسی دی جاچکی ہے۔

ملزم غلام قادر اور غلام سرور پر الزام تھا کہ انھوں نے دیگرملزمان کے ساتھ مل کر 2 فروری 2002ء کو تھانہ صدر صادق آباد ضلع رحیم یارخان کی حدود میں گاؤں رانجے میں عبدالقادر اور اسکے بیٹے اکمل کو قتل کرنے کے بعداپنی بیٹی سلمیٰ کوبھی قتل کر دیا تھا۔

ٹرائل کورٹ نے نامزد ملزمان میں سے 6 کوبری کر دیا تھا جبکہ ملزم غلام فریدکودوبارعمرقید اورغلام قادراور غلام سرورکو 3,3 بار سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا، لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بینچ نے اس فیصلے کو بر قرار رکھا۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سپریم کے جسٹس راجہ فیاض احمد اور جسٹس طارق پرویز نے 10 جون2010ء کو عبد القادر اور اکمل کی حد تک سزائے موت کا فیصلہ بر قرار رکھا جبکہ سلمیٰ کے معاملے پراپیل باقاعدہ سماعت کیلیے منظور کر کے مزید ساعت ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے کی نقل ہائی کورٹ، وزارت داخلہ اور محکمہ داخلہ پنجاب کو ارسال کردی تھی۔ جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں فل بینچ نے 6 اکتوبرکو جب کیس کی سماعت کی تو عدالت نے نشاندہی کی کہ گواہ نمبر 7 موقع کا گواہ ہے لیکن جرح میںکہہ رہا ہے کہ جب وہ پہنچے تو عبدالقادر اور اکمل قتل ہوچکے تھے، عدالت نے سوال اٹھایا جن ثبوتوںکی بنیاد پر6 ملزمان بری ہوئے ان ثبوتوں پر2افراد کو سزائے موت کیسے دی جا سکتی ہے۔

عدالت نے ملزمان غلام قادراور غلام سرورکو تینوں افراد کے قتل کے الزام سے بری کردیا تھا۔ بریت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی نقل حاصل کرنے کے بعد جب ڈسٹرکٹ جیل رحیم یارخان رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ ملزمان 2013ء میں بہاولپور جیل منتقل کردیے گئے تھے۔ایکسپریس نے جب بہاولپور جیل کی لینڈ لائن پر رابطہ کیا تو محرر ظہور نے انکشاف کیاکہ دونوں ملزمان کو 13اکتوبر 2015ء کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

ڈسٹرکٹ جیل رحیم یار خان کے سپرنٹنڈنٹ سید انجم شاہ نے بھی تصدیق کی کہ دونوں بھائیوں غلام قادر اور سرور کو سزائے موت دی جاچکی ہے،ملزمان کے وکیل افتاب خان سے جب  رابطہ کیا توانھوںنے بتایا کہ ہم اس معاملے میںسپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر رہے ہیں کیونکہ جب عدالت عظمیٰ کا 2010 کاحکمنامہ تمام متعلقہ اداروں کو مل چکا تھا تو پھر سزائے موت پر عمل کیسے کیاگیا؟۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close