Featuredاسلام آباد

وزیر مملکت حماد اظہر نے مالی سال 20-2019 کیلئے 70 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا

اسلام آباد: وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا پہلا مکمل بجٹ پیش کردیا جن کی تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔

وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے مالی سال 20-2019 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے، تحریک انصاف نئی سوچ، نیا عزم اور ایک نیا پاکستان لائی ہے، پاکستان کے لوگوں کی مرضی ہمیں یہاں لائی ہے، اب وقت ہے لوگوں کی زندگی بدلنے کا، اداروں میں میرٹ لانے کا اور کرپشن ختم کرنے کا۔’

انہوں نے کہا کہ ‘ہم سب اس ملک اور آئین کے محافظ ہیں، اس حکومت کےمنتخب ہوتے وقت پائی جانے والی معاشی صورتحال کو یاد کریں اور کچھ حقائق بتانے کی اجازت دیں۔’


بجٹ کے اہم نکات:

  • بجٹ خسارے کا تخمینہ 3 ہزار 137 ارب روپے
  • وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے
  • ترقیاتی بجٹ کے لیے 1800 ارب روپے مختص
  • جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد برقرار رکھنے کا فیصلہ
  • دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 20 ارب روپے مختص
  • داسو ہائیڈرو منصوبے کیلئے 55 اور مہمند ڈیم کے لیے 15 ارب روپے
  • اعلیٰ تعلیم کے لیے ریکارڈ 43 ارب روپے مختص
  • زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے
  • کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے
  • عسکری بجٹ 1150 ارب روپے برقرار رہے گا
  • پینشن میں 10 فیصد اضافہ
  • وفاقی کابینہ کے ارکان کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی
  • مزدور کی کم از کم تنخواہ 17 ہزار 500 روپے
  • خشک دودھ، پنیر، کریم پر 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مجموعی قرض اور ادائیگیاں 31 ہزار ارب روپے تھی اور 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات اور ادائیگیاں تھی اور بہت سے تجارتی قرضے زیادہ سود پر لیے گئے، گزشتہ 5 سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں تھا، جبکہ حکومت کا مالیاتی خسارہ 2 ہزار 260 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ ‘جب تحریک انصاف کو حکومت ملی تو بجلی کے نظام کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا اور 38 ارب ماہانہ کی شرح سے بڑھ رہا تھا، سرکاری اداروں کی کارکردگی 1300 ارب روپے کے مجموعی خسارے سے ظاہر تھی، پاکستانی روپے کی قدر بلند رکھنے کے لیے اربوں ڈالر جھونک دیئے گئے، اس مہنگی حکمت عملی سے برآمدات کو نقصان پہنچا، درآمدات کو سبسڈی ملی اور معیشت کو نقصان ہوا، ایسا زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا اس لیے دسمبر 2017 میں روپیہ گرنے لگا اور ترقی کا زور ٹوٹ گیا، چیزوں کی قیمتوں پر دباؤ بڑھ رہا تھا اور افراط زر 6 فیصد کو چھو رہی تھی۔’

انہوں نے کہا کہ حکومت وقت کی ذمہ داری تھی کہ وہ مناسب اقدامات سے صورتحال کو قابو میں لاتی، ہم نے فوری خطرات سے نمٹنے اور معاشی استحکام کے لیے چند اقدامات کیے، درآمدی ڈیوٹی میں اضافے سے یہ درآمدات 49 ارب ڈالر سے کم ہوکر 45 ارب ڈالر تک آگئی اور تجارتی خسارہ 4 ارب ڈالر کم ہوا، وزیر اعظم کے اعتماد دلانے سے ترسیلات زر میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، 38 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے بڑھنے والے بجلی کے گردشی قرضے میں میں 12 ارب روپے کی ماہانہ کمی آئی اور اسے 26 ارب روپے پر لایا گیا جبکہ چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت دوست ممالک سے 9.2 ارب ڈالر کی امداد ملی، اس امداد پر ان ممالک کا شکر گزار ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ صنعتی اور برآمدی شعبوں کو رعایتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی، کم سود پر قرضوں کی فراہمی، خام مال پر عائد درآمدی ڈیوٹی میں کمی کے ذریعے مجموعی طور پر 10 ارب روپے کی رعایت، برآمدی شعبے میں وزیر اعظم کے پروگرام میں 3 سال کی توسیع، چین سے 313 اشیا کا ڈیوٹی فری معاہدے جیسے اقدامات سے موجودہ سال میں برآمدات کے حجم میں اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت بجٹ سے پہلے اپنے اخراجات کم کرے، ورنہ روپے پر دباؤ برقرار رہے گا، ڈاکٹر محمد زبیر

حماد اظہر نے بتایا کہ نِٹ ویئر میں 16 فیصد، بیڈ ویئر میں 10 فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹس میں 29 فیصد، پھلوں اور سبزیوں میں 11اور 18 فیصد اور باسمتی چاول کی مقدار میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوگیا ہے، آئی ایم ایف کے بورڈ کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا، اس پروگرام میں ہونے کی وجہ سے کم سود پر 2 سے 3 ارب ڈالر کی اضافی امداد بھی میسر ہوگی، مالیاتی نظم و ضبط اور بنیادی اصلاحات کے لیے حکومت کی سنجیدگی نظر آئے گی جس سے عالمی سرمایہ کاروں کاا اعتماد حاصل ہوگا اور معیشت کو استحکام حاصل ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے فوری ادائیگی کے بغیر 3.2 ارب ڈالر کا سالانہ تیل درآمد کرنے کی سہولت حاصل کی تاکہ عالمی کرنسی کے ذخائر پر دباؤ کم ہو، اس کے علاوہ حکومت نے اسلامی ترقیاتی بینک سے ایک ارب ڈالر کی فوری ادائیگی کے بغیر تیل درآمد کرنے کی سہولت حاصل کی، ان اقدامات کی بدولت اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 7 ارب ڈالر کی کمی آئے گی۔

حماد اظہر نے بتایا کہ بیرونی استحکام کے علاوہ حکومت نے دیگر اقدامات بھی کیے، اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم پر عملدرآمد جاری ہے جس سے ٹیکس کا دائرہ وسیع ہوگا اور بے نامی اور غیر رجسٹرڈ اثاثے معیشت میں شامل ہوں گے، 95 ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لیے فنڈز جاری کیے گئے، احتساب کے نظام، اداروں کے استحکام اور طرز حکمرانی بہتر بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے، اسٹیٹ بینک کو مزید خودمختاری دی گئی، افراط زر کو مانیٹری پالیسی کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا ہے، ٹیکس پالیسی کو ٹیکس انتظامیہ سے الگ کیا گیا ہے تاکہ دونوں کام بہتر طریقے سے ہو سکے، ایک ٹریژری بینک اکاؤنٹ بنایا گیا ہے اور اب حکومت کی رقم کمرشل بینک اکاؤنٹ میں رکھنا منع ہے، پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا گیا تاکہ سمندر پار پاکستانی 6.75 فیصد منافع سے فائدہ اٹھا کر وطن میں سرمایہ کر سکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) نے سرمائے کی کمی دور کرنے کے لیے گزشتہ برس کے 54 ارب روپے کے مقابلے میں 145 ارب روپے کے ریفنڈ جاری کیے، پیچھے رہ جانے والوں کے لیے امداد اور فنڈز کے پروگرام شروع کیے گئے، بلین ٹری سونامی اور کلین اینڈ گرین پروگرام شروع کیے گئے، سابق فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی۔

مالی سال 20-2019 کے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ بناتے وقت حکومت کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح اور خوشحالی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے بجٹ کے لیے ہم نے بیرونی خسارے میں کمی کا ہدف رکھا ہے اور درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے سے بیرونی خسارے کو کم کیا جائے گا، جس کا مقصد کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ڈالر سے کم کرکے 6.5 ارب ڈالر تک کیا جائے گا، برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت خام مال اور انٹرمیڈیٹ اشیا کے ڈیوٹی اسٹرکچر کے حوالے سے سپورٹ کرے گی، ٹیکس ریفنڈ کا نظام بہتر بنائے گی، مقابلے کی سستی بجلی اور گیس فراہم کرے گی، آزادانہ تجارتی معاہدوں کو دیکھا جائے گا اور پاکستان کو بین الاقوامی کڑی کا حصہ بنایا جائے گا، ایف بی آر کے ریونیو کے لیے 5 ہزار 550 ارب روپے کا چیلنجنگ ہدف رکھا گیا ہے۔

حکومتی اخراجات میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں اس پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ بنیادی خسارہ 0.6 فیصد تک رہ جائے، سول و عسکری حکام نے اپنے اخراجات میں مثالی کمی کا اعلان کیا ہے۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ بجٹ 20-2019 میں ہماری بنیادی اصلاح ٹیکس میں اضافہ ہوگا، پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 11 فیصد سے بھی کم ہے جو خطے میں سب سے کم ہے، صرف 20 لاکھ لوگ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں، جن میں 6 لاکھ ملازمین ہیں، صرف 380 کمپنیاں کُل ٹیکس کا 80 فیصد سے بھی زیادہ ادا کرتی ہیں جبکہ کُل 3 لاکھ 39 ہزار بجلی و گیس کے کنیکشنز ہیں اور اس میں 40 ہزار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، اسی طرح کُل 31 لاکھ کمرشل صارفین میں سے 14 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں، بینکوں کے مجموعی طور پر 5 کروڑ اکاؤنٹ ہیں جس میں 10 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس کے علاوہ ‘ایس ای سی پی’ میں رجسٹرڈ ایک لاکھ کمپنیوں میں سے صرف 50 فیصد ٹیکس ادا کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس وصولی کم ہے، بہت سے پیسے والے لوگ ٹیکس میں حصہ نہیں ڈالتے، نئے پاکستان میں اس سوچ کو بدلنا ہوگا، جب تک ٹیکس نظام میں بہتری نہیں لائیں گے پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، تاریخی طور پر ہم نے صحت، تعلیم، پینے کے پانی، شہری سہولیات اور لوگوں سے متعلق چیزوں پر مطلوبہ اخراجات نہیں کیے، اب ہم اس مقام پر آگئے ہیں کہ ہمیں قرضوں اور تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے، اس صورتحال کو بدلنا ہوگا۔

حماد اظہر نے بتایا کہ سول و عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی، اس کے نتیجے میں سول حکومت کے اخراجات 460 ارب روپے سے کم کرکے 437 ارب روپے کیے جارہے ہیں جو 5 فیصد کمی ہے۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ اسی طرح عسکری بجٹ موجودہ سال کی شرح یعنی 1150 ارب روپے پر مستحکم رہے گا، بچت کے اس مشکل فیصلے کے لیے وزیر اعظم کے تدبر اور عسکری قیادت خصوصاً آرمی چیف کی حمایت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میں واضح کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کا دفاع اور قومی خودمختاری ہر شے پر مقدم ہے، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وطن اور لوگوں کے دفاع کے لیے پاک فوج کی صلاحیت میں کمی نہ آئے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ کمزور طبقوں کے تحفظ کے حوالے سے 4 مختلف تجاویز کا ذکر کروں گا، بجلی کے صارفین میں 75 فیصد ایسے ہیں جو ماہانہ 300 یونٹ سے کم استعمال کر رہے ہیں حکومت انہیں خصوصی تحفظ فراہم کرے گی، اس مقصد کے لیے 200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی ہے جو ملک میں سماجی تحفظ کے پروگرام بنائے گی اور ان پر عملدرآمد کرے گی، احساس پروگرام سے مدد حاصل کرنے والوں میں انتہائی غریب، یتیم، بے گھر، بیوائیں، معذور اور بے روزگار افراد شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ مستحق افراد کو صحت مند خوراک فراہم کرنے کے لیے ایک نئی ‘راشن کارڈ اسکیم’ شروع کی جارہی ہے، جس کے تحت ماؤں اور بچوں کو خصوصی صحت مند خوراک دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 80 ہزار مستحق افراد کو ہر مہینے بلاسود قرضے دیئے جائیں گے، 60 لاکھ خواتین کو ان کے اپنے سیونگ اکاؤنٹس میں وظائف کی فراہمی اور موبائل فون تک رسائی دی جائے گی، 500 کفالت مراکز کے ذریعے خواتین اور بچوں کو فری آن لائن کورسز کی سہولت دی جائے گی، معذور افراد کو وہیل چیئر اور سننے کے لیے آلات فراہم کیے جائیں گے۔

حماد اظہر نے کہا کہ تعلیم میں پیچھے رہنے والے اضلاع میں والدین کو بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے خصوصی ترغیب دی جائے گی، جبکہ عمر رسیدہ افراد کے لیے احساس گھر بنانے کا پروگرام شروع کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام کے تحت بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے 57 لاکھ انتہائی غریب گھرانوں کو فی سہ ماہی 5000 روپے نقد امداد دی جاتی ہے جس کے لیے 110 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، افراط زر کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سہ ماہی وظیفے کو بڑھا کر 5500 مقرر کیا گیا ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ غریبوں کی نشاندہی کے لیے سماجی اور معاشی ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جو مئی 2020 تک مکمل ہوگا، اس دوران 3 کروڑ 20 لاکھ گھرانوں اور 20 کروڑ آبادی کا سروے کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ 50 اضلاع میں ‘بی آئی ایس پی’ سے بچیاں 750 روپے وظیفہ حاصل کرتی ہیں، اس پروگرام کو مزید 100 اضلاع تک توسیع دی جارہی ہے اور بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 سے بڑھا کر 1000 تک کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت سہولت پروگرام کے تحت غریب افراد کو صحت کی انشورنس فراہم کی جاتی ہے، مستحق افراد کو صحت کارڈ فراہم کیے جاتے ہیں جن سے وہ ملک بھر سے منتخب 270 ہسپتالوں سے 7 لاکھ 20 ہزار روپے کا سالانہ علاج کروا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں پاکستان کے 42 اضلاع میں 32 لاکھ خاندانوں کو صحت انشورنس کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، اگلے مرحلے میں اسے ڈیڑھ کروڑ پسماندہ خاندانوں تک توسیع دی جائے گی، اس پروگرام کا اطلاق تمام اضلاع بشمول تھرپارکر اور خیبر پختونخوا کے خاندانوں پر ہوگا۔

آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں حکومت صحت، تعلیم، غدائیت، پینے کے صاف پانی کے لیے 93 ارب روپے مختص کرے گی، کم آمدن والے افراد کو سستے گھر بنا کر دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، اس کے علاوہ موسمی تبدیلی کی تلافی کے لیے بلین ٹری سونامی، کلین اور گرین پاکستان پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کوشش کریں گے کہ قیمتوں میں کم سے کم اضافہ کیا جائے لیکن اگر عالمی منڈیوں میں قیمتیں بڑھنے سے ہمیں قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ صارفین کو تحفظ دیا جائے، قیمتوں میں استحکام بنیادی اہمیت رکھتا ہے، مالیاتی پالیسی اور مانیٹری پالیسی کے ذریعے قیمتوں میں اضافے کا مقابلہ کریں گے جس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض حاصل کیا جاتا ہے اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اب یہ سہولت استعمال نہیں ہوگی، افراط زر کے لیے ہمارا وسط مدتی ہدف 5 سے 7 فیصد ہے، بدعنوانی کے مقابلے کے لیے پرعزم ہیں، اداروں کو خودمختاری دیں گے اور ان کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے، 20-2019 معیشت کے استحکام کا سال ہوگا۔

حماد اظہر نے کہا کہ اس سال قومی ترقیاتی بجٹ میں 1800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے 950 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ کی ترجیحات میں پانی کا نظام، معلومات پر مبنی معیشت کا قیام، بجلی کی ترسیل و تقسیم کو بہتر بنانا، کم لاگت میں بجلی کی پیداوار، سی پیک، انسانی و سماجی ترقی میں سرمایہ کاری اور متعلقہ شعبوں میں پبلک ۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آبی وسائل کے بہتر استعمال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی توجہ بڑے ڈیموں اور نکاسی آب کے منصوبوں پر مرکوز ہے اس مقصد کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں، دیامر بھاشا ڈیم کے لیے زمین حاصل کرنے کے لیے 20 ارب روپے اور مہمند ڈیم کے لیے 15 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سڑک اور ریل سے متعلق کچھ منصوبے سی پیک کا حصہ ہوں گے، اس مقصد کے لیے 200 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں جن میں سے 156 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، حویلیاں – تھاکوٹ شاہراہ کے لیے 24 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں، پشاور- کراچی موٹر وے کے سکھر-ملتان سیکشن کے لیے 19 روپے تجویز کیے گئے ہین۔

حماد اظہر نے کہا کہ زراعت صوبائی محکمہ ہے تاہم اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور اس میں ترقی کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے 10.4 ارب روپے سے کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے، یہ رقم 30 ارب روپے کے پانی اور نکاسی کے منصوبوں سے الگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔

روزگار کے لیے وزیر اعظم کے ’50 لاکھ گھر پروگرام’ سے 28 صنعتوں کو فائدہ ہوگا اور بے روزگاروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اس کے لیے زمینیں حاصل کرلی گئی ہیں اور سرمایہ کاری کے انتظامات مکمل کیے جارہے ہیں، یہ سلسلہ ملک بھر میں پھیلے گا، پہلے مرحلے میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے لیے 25 ہزار اور بلوچستان میں 1 لاکھ 10 ہزار ہاؤسنگ یونٹ کا افتتاح کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے کاروبار کے لیے سستے قرضے کی اسکیم کے تحت 100 ارب روپے دیئے جائیں گے۔

صنعتی شعبے کے لیے مراعات اور سبسڈی دی جارہی ہیں جس میں بجلی اور گیس کے لیے 40 ارب کی سبسڈی، برآمدی شعبے کے لیے 40 ارب روپے کا پیکج اور حکومت طویل المدتی ٹریڈ فنانسنگ کی سہولت برقرار رکھے گی۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ رواں سال زرعی شعبے میں 4.4 فیصد کمی ہوئی ہے، اسے واپس اوپر اٹھانے کے لیے صوبائی حکومتوں سے مل کر 280 روپے کا 5 سالہ پروگرام شروع کیا جارہا ہے، اس پروگرام کے تحت پانی سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے پانی کا انفراسٹرکچر بنایا جائے گا اور اس کے تحت 218 ارب روپے کے منصوبوں پر کام ہوگا، گندم، چاول، گنے اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے 44.8 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کیکڑے اور ٹھنڈے پانی کی ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ کے منصوبوں کے لیے 9.3 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، گھریلو مویشی کے پالنے کے لیے 5.6 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، جبکہ زرعی ٹیوب ویلوں پر 6.85 روپے فی یونٹ کے حساب سے رعایتی نرخ فراہم کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کسانوں سے 10 ہزار روپے ماہانہ بل وصول کیا جاتا ہے اور 75 ہزار تک کا اضافی بل صوبائی اور وفاقی حکومتیں برداشت کرتی ہیں، چھوٹے کسانوں کے فصل خراب ہونے کی صورت میں نقصان کی تلافی کے لیے انشورنس اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے جس کے لیے 2.5 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں میں اصلاح کے لیے ایک پروگرام پیش کیا جارہا ہے جس کے تحت رواں سال ایل این جی سے چلنے والے بجلی گھروں اور چند چھوٹے بجلی گھروں کی نجکاری کی جائے گی جس سے 2 ارب روپے حاصل ہوں گے، موبائل فون کے لائسنس سے ایک ارب روپے تک جمع ہونے کی توقع ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ بجلی کا گردشی قرضہ 1.6کھرب روپے، گیس کا گردشی قرضہ 150 ارب روپے ہے، گردشی قرضوں کے لیے بجلی اور گیس کے ٹیرف پر نظرثانی کی گئی، بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف مہم کا آغاز کرکے 80 ارب روپے وصول کیے گئے ہیں اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے گردشی قرضوں میں اضافہ 38 ارب روپے ماہانہ سے سے کم ہوکر 24 ارب رہ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انضمام شدہ قبائلی علاقوں کے ترقیاتی اخراجات کے لیے 152 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے جس میں 10 سالہ ترقیاتی منصوبہ بھی شامل ہے جس کے لیے وفاقی حکومت 48 ارب روپے دے گی، یہ 10 سالہ پیکج 1 کھرب روپے کا حصہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہیا کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ہماری مستقل ترجیح ہے جس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں نئے شعبے شامل کیے گئے ہیں جن میں اقتصادی ترقی، زراعت اور خصوصی معاشی زونز بنانے کے ذریعے صنعتی ترقی کا حصول شامل ہے، جبکہ ریلوے کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے رقم مختص کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ ایک لعنت ہے، اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور معاشی نقصان ہوتا ہے، تجارت پر منحصر منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے ایک نیا نظام تجویز کیا جارہا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی بنانے کی وسیع تر خودمختاری دی جارہی ہے، جبکہ حکومت کو رقوم کمرشل بینکوں میں رکھنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ملازمین اور پینشنرز کے لیے سول گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کے لیے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس، 17 سے 20 تک کی تنخواہوں میں 5 فیصد اور 21 اور 22 کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر یہ قربانی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی حکومت کے تمام سول اور فوجی پینشرز کی کُل پینشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معذور ملازمین کا اسپیشل کنوینس الاؤنس 1 ہزار سے بڑھا کر 2 ہزار کیا جارہا ہے جبکہ وزرا، وزرائے مملکت، پارلیمانی سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری، جوائنٹ سیکریٹری کے ساتھ کام کرنے والے اسپیشل پرائیوٹ سیکریٹری، پرائیوٹ سیکریٹری اور اسسٹنٹ پرائیوٹ سیکریٹری کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔

کابینہ کے تمام وزرا نے عمران خان کی قیادت میں اپنی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کا تاریخی فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کم از کم تنخواہ بڑھاکر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ کی جارہی ہے۔

وفاقی بجٹ تقریر میں انہوں نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے لیے بجٹ تخمینہ 7 ہزار 22 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال کے نظر ثانی شدہ بجٹ 5 ہزار 385 ارب روپے کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے، مالی سال 20-2019 کے لیے وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے ہے جو 19-2018 کے 5 ہزار 681 ارب روپے کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے ذریعے 5 ہزار 550 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے، جس کے مطابق ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 12.6 فیصد ہوگا، وفاقی آمدنی وصولی میں سے 3 ہزار 255 ارب روپے ساتویں ‘این ایف سی ایوارڈ’ کے تحت صوبوں کو جائیں گے جو موجودہ سال کے 2 ہزار 465 ارب روپے کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہے۔

اسی طرح مالی سال 20-2019 کے لیے موجودہ وفاقی ذخائر میں 3 ہزار 462 ارب روپے کا تخمینہ ہے جو رواں مالی سال کے 3 ہزار 70 ارب روپے کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہے، اسی طرح وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 560 ارب روپے ہوگا۔

وزیر مملکت برائے ریونیو نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے لیے صوبائی سرپلس کا تخمینہ 423 ارب روپے ہے اور مجموعی مالی خسارہ 3 ہزار 151 ارب یا جی ڈی پی کا 7.2 فیصد ہوگا جو 19-2018 میں 7.2 فیصد تھا۔

اپنی تقریر کے دوران ٹیکس تجاویز کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس سال پاکستان نے سابق حکومتوں کی طرف سے متعارف کروائی گئی ناقص ٹیکس پالیسیوں کے بدترین اثرات کا سامنا کیا، ان پالیسیوں کو پاکستانی عوام کی تائید حاصل نہ تھی، گزشتہ حکومت نے اضافی ٹیکس ریلیف فراہم کیا جس سے ٹیکس بیس میں 9 فیصد کمی واقع ہوئی، گزشتہ 5 سال کے دوران حکومت نے ٹیکس محصولات میں اضافے کے لیے صرف ٹیکس ریٹ میں اچانک تبدیلیوں کی رسائی کا سہارا لیا اور زیادہ مستعد، مساویانہ اور مضبوط ٹیکس نظام کے قیام میں ٹیکس بیس میں اضافے کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ 22 کروڑ آبادی میں صرف 19 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں اور ان میں بھی ٹیکس جمع کروانے والوں کی تعداد 13 لاکھ ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ سیلز ٹیکس فائلرز کی تعداد صرف ایک لاکھ 41 ہزار ہے جس میں سے صرف 43 ہزار اپنے گوشواروں کے ساتھ ٹیکس ادا کرتے ہیں، پاکستان میں جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح 12 فیصد ہے جو نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں کم ترین شرح مٰں سے ایک ہے جبکہ موجودہ اخراجات کے لحاظ سے ضروری ہے کہ ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا 20 فیصد ہو، اسی تناظر میں موجودہ حکومت نے ٹیکس اصلاحات کا ایسا ایجنڈا ترتیب دیا ہے جس کے ذریعے سخت فیصلے کیے جائیں گے جو نہ صرف مائیکرو انکامک اسٹیبیلٹی بلکہ آنے والی نسلوں کی خاطر قومی یکجہتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close