اسلام آباد

چین نے اسحق ڈار کو بچالیا، پاکستان کو کتنے سو ارب روپے دے ڈالے؟ جان کر حیرت کی انتہا نہ رہے گی

اسلام آباد: ہمارے وزیر خزانہ نے معاشی استحکام کے دعوے تو بہت کئے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی داستان بیان کررہے ہیں۔ درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی ایک سنگین اقتصادی مسئلے کی جانب اشارہ کررہی ہے، جس کا نتیجہ زر مبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی کمی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ اخبار فنانشل ٹائمز نے اسی سلسلے میں ایک چشم کشا انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تجارتی خسارے کے بحران سے نکالنے کیلئے چین نے پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر (تقریباً ایک کھرب 20 ارب پاکستانی روپے) دئیے، ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جاتے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو کرنسی بحران سے بچانے کیلئے چینی بینک دو دفعہ اس کی مدد کو آئے۔ 90 کروڑ ڈالر (تقریباً 90 ارب پاکستانی روپے) 2016ءمیں جبکہ 30 کروڑ ڈالر (تقریباً 30 ارب پاکستانی روپے) رواں سال کے پہلے تین ماہ میں پاکستان کو دئیے گئے ہیں۔ اس صورتحال کو پاکستان کے فارن کرنسی سٹاک کی کمزوری کا مظہر بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں یہ کمی درآمدات بڑھ جانے اور برآمدات کم ہوجانے سے ہوئی ہے، جبکہ بیرون ملک سے آنے والی رقوم ، یعنی ترسیلات زر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

گوادر کی بندرگاہ سے لے کر چین کی سرحد تک اقتصادی راہداری کی تعمیر اور اس سے متعلقہ منصوبوں پر بھی چین 52 ارب ڈالر (تقریباً 52 کھرب پاکستانی روپے)کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اس پراجیکٹ میں شاہراہیں، انڈسٹریل پارک اور توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ا گرچہ مستقبل کے حوالے سے یہ بہت بڑا اور فائدہ مند منصوبہ ہے لیکن کنٹریکٹرز اور سپلائرز کو ادائیگیوں کی مد میں دی جانے والی رقوم سے زر مبادلے کے ذخائر میں مزید کمی متوقع ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق فروری کے اختتام پر خالص ذخائر 17.1 ارب ڈالر (تقریباً 17کھرب ایک ارب پاکستانی روپے) تھے، جو کہ گزشتہ سال اکتوبر کے اختتام پر 18.9 ارب ڈالر اور چند سال قبل اپنی بلند ترین سطح پر 25 ارب ڈالر (تقریباً 25کھرب پاکستانی روپے)تھے۔

اس صورتحال کے پیش نظر بیرونی قرضوں کی فارن کرنسی میں ادائیگی کیلئے بھی مزید قرضہ جات لینا پڑرہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو پاکستان کو ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس واپس جانا پڑے گا۔ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر وقار احمد نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا ”تکنیکی طور پر تو ہمیں جنوری میں آئی ایم ایف کے پاس چلے جانا چاہیے تھا لیکن غالباً وزراء2018ءکے الیکشن تک انتظار کریں گے۔ “ یاد رہے کہ ابھی گزشتہ سال ہی پاکستان نے آئی ایم ایف کے قرضہ جات ادا کرکے اس سے نجات حاصل کی تھی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close