کشمیر

خطرہ لوگوں سے نہیں پولیس سے ہے

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ہندواڑہ قصبے میں مبینہ چھیڑ چھاڑ کی متاثرہ لڑکی کے والد نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس انھیں اور ان کی بیٹی کو بلا وجہ پریشان کر رہی ہے۔

لڑکی کے والد نےکہا کہ ان کی جان کو پولیس سے خطرہ لاحق ہے۔

لیکن شمالی کشمیر کے پولیس انسپکٹر جنرل اتّم چند نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

ہندواڑہ میں لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا یہ واقعہ 12 اپریل کو پیش آيا تھا۔

سرینگر سے 74 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہندواڑہ قصبے میں کچھ مقامی لوگوں نے فوج کے ایک جوان پر مقامی لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا تھا۔

یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی تھی، اور اس کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران فوج کی فائرنگ سے پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

متاثرہ لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ ’جس روز میری بیٹی کا یہ معاملہ ہوا، رات کے ایک بجے پولیس نے مجھے تھانے بلایا اور کہا کہ اپنی لڑکی کو یہاں سے لے جاؤ۔ میں اپنی سالی کے ساتھ وہاں پہنچا، لیکن انھوں نے ہمیں بھی بند کر دیا۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ ’پولیس نے میرا موبائل چھین لیا اور گھر والوں کے ساتھ بات تک نہیں کرنے دی۔ رات بھر مجھے ٹھنڈے فرش پر رکھا۔ میری بیٹی کوگالیاں دیں، اس پر تھوکا اور گالیاں دیں۔‘

پولیس پر پریشان کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انھوں نے کہا: ’گذشتہ 21 دنوں سے پولیس نے ہماری زندگی جہنم بنا کر رکھ دی ہے۔ ہم اپنی مرضی سے کہیں نہیں جا پاتے۔ باہر جانے کی كوشش کرتے ہیں تو پولیس جانے سے روک دیتی ہے، پيچھے لگی رہتی ہے۔ ہم پولیس کی حفاظت میں قطعی طور پر نہیں رہنا چاہتے۔ ہم اپنے گھر میں رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر خطرہ ہے تو پولیس سے۔ یہ کبھی بھی ہمیں مار ڈالیں گے۔ ‘

انھوں نے الزام لگایا کہ ان کی بیٹی عدالت میں ساری حقیقت بتانا چاہتی ہے لیکن پولیس اسے کہیں بھی نہیں جانے دیتی۔

ان کا کہنا تھا: ’ہمارے خاندان میں 20 افراد ہیں، صرف مجھے اور میری بیٹی کو قید کر کے رکھا گیا ہے، کیا صرف ہم دونوں ہی کو خطرہ ہے؟ ہمارے خاندان کے دوسرے لوگ کیسے محفوظ ہیں؟‘

لڑکی کو اس وقت ان کے ماموں کے گھر میں رکھا

گیا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے ان پر بیٹی کی عمر تبدیل کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا تھا۔ ’پولیس نے بار بار مجھ سے کہا کہ تم اپنی بیٹی کی عمر 20 سال لکھو۔ لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔‘

لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ ’میری بیٹی رات بھر سو نہیں پاتی۔ وہ بہت دباؤ میں ہے۔‘

لیکن پولیس افسر اتّم چند نے ان الزامات پر رد عمل میں کہا: ’ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور مجھے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ لڑکی کے والد نے تو خود تحفظ کے لیے عدالت میں عرضی داخل کی ہے۔‘

منگل کو جموں کشمیر ہائی کورٹ میں اس معاملے کی سماعت کے دوران فوج نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے لڑکی کی ویڈیو نہیں بنائی تھی بلکہ صرف اس کو جاری کیا ہے جو پہلے ہی سے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر موجود تھی۔

جموں کشمیر كولیشن آف سول سوسائٹی نے کہا ہے کہ چونکہ فوج نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ انھوں نے ویڈیو جاری کی ہے، اس لیے فوج کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close