کشمیر

سید صلاح الدین کے بیٹے سمیت 18کشمیری نوجوانوں پر تہاڑ جیل میں بدترین تشدد

مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج اور سکیورٹی ادارے نہتے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و بر بریت اور وحشیانہ تشدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے،تحریک آزادی کے نعرے لگانے کے ’’جرم ‘‘میں گرفتار ہونے والے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ عقوبت خانوں میں ہونے والے ظلم کی داستانیں ایسی ہیں کہ جن کو سن کر ہی روح کانپ جاتی ہے ،ایسا ہی ظلم و وحشت کا ایک واقعہ دہلی کی بدنام زمانہ’’ تہاڑ جیل‘‘ میں پیش آیا جہاں بھارتی وحشی درندوں نے 18کشمیری نوجوانوں کے ساتھ ظلم و جارحیت اور انتہائی بے رحمی کے ساتھ تشدد کیا گیا کہ انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے ،جن کشمیری نوجوانوں پر یہ انسانیت سوز ظلم ڈھایا گیا ان میں معروف کشمیری تنظیم ’’ حزب المجاہدین‘‘ کے سربراہ سید صلاح الدین احمد کے 42سالہ بیٹاسید یوسف شاہد بھی شامل ہے ،مودی حکومت نے اس شرمناک واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد میڈیا اور کشمیری مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے تشدد اور بربریت میں ملوث تما م سیکیورٹی اہلکاروں کو معطل کر نے کا حکم تو جاری کیا لیکن تاحال کئی روز گذرنے کے باوجود ان میں سے کسی بھی اہلکار پر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ۔

بھارتی نجی ٹی وی چینل ’’آج تک ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی کی بدنام زمانہ اور ہائی سیکیورٹی زون قرار دی جانے والی ’’ تہاڑ جیل ‘‘ میں قید 18کشمیری نوجوانوں پر ظالم بھارتی سیکیورٹی فورسز کے درندہ صفت اہلکاروں نے گذشتہ ماہ کی اکیس اور 22تاریخ کے درمیان انتہائی بے رحمی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں مار مار کر ادھ موا کر دیا ،تشدد کا نشانہ بننے والے کشمیری نوجوان قیدیوں کی ان ظالم بھارتی اہلکاروں نے مار مار کر ہڈیا ں توڑ دیں ،اس واقعہ کے میڈیا پر آنے کے بعد مودی سرکار نے اس شرمناک واقعہ کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی رپورٹ انڈین وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو پیش کی جس کے بعد تشدد میں ملوث سیکیورٹی اہلکاروں کو صرف معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں تاہم تشدد میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کوئی کیس اور ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ۔

دوسری طرف معروف برطانوی اخبار ’’میل ٹو ڈے ‘‘ نے تشدد کا نشانہ بننے والے کشمیری نوجوانوں کی دل دہلا دینے والی تصویریں بھی شائع کر کے بھارت کی جمہوریت نوازی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے جھوٹے اور کھوکھلے دعوؤں کو پول کھول دیا ہے۔ تشدد کا نشانہ بننے والے ان اٹھارہ کشمیری نوجوانوں کو تہاڑ جیل میں تفتیش کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،دوسری طرف کشمیری نوجوانوں پر انسانیت سوز تشدد کے منظر عام پر آنے کے بعد پوری مقبوضہ وادی میں انتہائی اشتعال پیدا ہو چکا ہے اور جگہ جگہ کشمیری بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔واضح رہے کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کا یہ بدترین ظلم اس وقت سامنے آیا جب تشدد کا نشانہ بننے والے ان گرفتار کشمیری نوجوانوں میں احتشام احمد نامی قیدی کو بے بنیاد اور جھوٹے کیس میں سوپور سیشن کورٹ میں پیشی کے لئے لایا گیا تو اس مظلوم قیدی نے سیشن جج کو اپنے کپڑے اتار کر جسم پرہونے والے تشدد کے واضح اور انتہائی خوفناک نشان دکھائے جنہیں دیکھ کر سیشن جج بھی ہل کر رہ گیا اور اس نے متاثرہ قیدی کو فوری ہسپتال منتقل کرنے کے احکامات جاری کئے ، ہسپتال میں ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اس کے جسم کی کئی ہڈیاں ٹوٹی اور جسم پر گہری چوٹیں لگی ہیں،علاج میں تاخیر پر اس کی حالت تشویش ناک بھی ہو سکتی ہے ۔ قیدی احتشام کے والد فاروق احمد کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز نے جیل میں میرے بے گناہ بیٹے کو صر ف اس ’’گناہ ‘‘ پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ رات سونے کئے لئے سر کے نیچے خود ہی کپڑوں سے بنایا ہوا تکیہ کیوں استعمال کرتا ہے ؟۔فاروق احمد کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا جسے بھارتی فورسز نے حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے اپنی گرفتاری سے پہلے ہی گردن کی تکلیف میں مبتلا تھا اور ڈاکٹرز نے ہی اسے ہدایت کی تھی کہ وہ درد سے بچنے کے لئے ہمیشہ نرم تکیہ استعمال کرے ، اسے جیل میں نرم تکیہ کہاں سے ملتا؟ لہذا اس نے اپنے پرانے کپڑوں کا خود ہی تکیہ بنایا تھا جسے وہ اسوتے وقت سر کے نیچے رکھ لیتا تھا ۔

برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق نامی کشمیری شخص کا کہنا تھا کہ تہاڑ جیل کے حکام کرتے ہیں کہ وہ قیدیوں کی اصلاح اور انہیں درست راستے پر لانے کے لئے کام کر رہے ہیں ،ایسا ظلم تو کوئی جانوروں سے بھی نہیں کرتا جیسا سلوک جھوٹے الزامات کے تحت جیلوں میں قید کشمیری اسیروں کے ساتھ بھارتی درندے رکھ رہے ہیں ، کیا ایسا بدترین تشدد ’’اصلاح ‘‘ کے لئے کیا جا رہا ہے ؟کیا ایسے تشدد سے کشمیری تحریک آزادی کے نعرے لگانا چھوڑ دیں گے ؟۔ تہاڑ جیل میں تشدد کا دوسرا واقعہ گذشتہ ماہ ہی اس وقت منظر عام پر آیاجب جیل میں قید معروف کشمیری تنظیم ’’حزب المجاہدین ‘‘ کے سربراہ سید صلاح الدین احمد کے 42سالہ بیٹے سید یوسف شاہد سے ہائی کورٹ کے حکم پر ملاقات کے لئے ان کا وکیل جیل گیا ، بھارتی سیکیورٹی اداروں نے یوسف کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس پر یوسف کے وکیل نے اس معاملے کو ہائی کورٹ میں لے گئے اور وہاں چیخ و پکا ر کی جس کے بعد ہائی کورٹ نے تشدد کی تحقیقات کے لئے ایک ایک کمیٹی تشکیل دے دی جس کے بعد یہ واقعہ کشمیری اور بھارتی میڈیا میں پھیلتا گیا ۔

انگریزی اخبار ’’ میل ٹوڈے‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سید یوسف شاہد کے بہنوئی ڈاکٹر سید عمر نے کہاکہ تشدد کی خبریں سامنے آنے کے بعد انہوں نے تہاڑ جیل میں گذشتہ ماہ 24نومبر کو یوسف سے ملاقات کی جہاں اس کا کوئی علاج نہیں کیا جا رہا تھا ،یوسف کے سر ، کمر ،پیروں اور ہاتھوں سمیت پورے جسم پر پر زخموں کے گہرے نشانات تھے جبکہ اس کے بائیں کاندھے پر بھی گہرے زخم کے نشان ہیں جس کی وجہہ سے وہ اپنے بائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہلا پارہا ۔یاد رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں بھارتی تحقیقاتی ادارے ’’نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے پیسوں کے لین دین اور منی لانڈرنگ کے جھوٹے الزامات کی تحقیقات کے لئے انہیں دہلی طلب کیا جب وہ بھارتی تحقیقاتی ایجنسی کے دفتر پہنچے تو انہیں وہیں پر حراست میں لیتے ہوئے دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات بنا کر حراست میں لے لیا تھا ۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close