خیبر پختونخواہ

معذوری بھی حوصلہ نہ توڑ سکی

خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے بے خبر اور گھر کی واحد کفیل 21 سالہ طاہرہ لوگوں کے کپڑے سینے میں مصروف ہے۔

پولیو کے باعث ایک پاؤں سے معذور طاہرہ اپنے والدین اور پانچ بہن بھائیوں کی کفالت کے لیے دن کا زیادہ وقت کام کرکے گزارتی ہے، اور اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی تعلیم اور گھر کے اخرجات پورے کرنے کے لیے کمانے پر فخر محسوس کرتی ہے۔

منگلاوار علاقے کی باہمت طاہرہ کو سِلائی کا ہنر سیکھنے کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑٓ، جبکہ ذریعہ معاش کے لیے لوگوں کے سامان کا بوجھ اٹھانے والے اس کے والد اب اتنے بوڑھے ہوچکے ہیں کہ مزید کام کرنے سے قاصر ہیں۔

ان کے بڑے بھائی اپنی شادی سے محض دو روز قبل ہی ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے، جس کا طاہرہ کی والدہ کو بہت صدمہ پہنچا اور وہ دل و دماغ کی کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہوگئیں۔

 طاہرہ نے 

بتایا کہ بڑے بھائی کی اچانک موت اور والد کے کام کرنے سے قاصر ہونے کے بعد صرف میں ہی گھر کی کفالت کا واحد ذریعہ تھی، لیکن بدقسمتی سے میں پڑھی لکھی نہیں ہوں اور نہ ہی اس وقت میرے پاس کوئی ہنر تھا۔

انہوں نے کہا کہ انہیں اُس وقت تعلیم کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا جب وہ تعلیم یافتہ پڑوسی لڑکیوں کو نوکری کرتے اور باعزت طریقے سے روزگار کماتے دیکھتی تھیں، اُس وقت ان کے اہلخانہ کا گزر بسر زکوٰۃ اور صدقے کے پیسوں سے ہوتا تھا۔

تاہم ان کی زندگی اُس وقت بدل گئی جب انہوں نے خواتین کمیونٹی آرگنائزیشن ’دا سحر گُل‘ (ڈبلیو سی او) کے ’ای یو پیس‘ پروگرام میں داخلہ لیا اور سِلائی سیکھی۔

طاہرہ کا کہنا تھا کہ اس ٹریننگ پروگرام نے انہیں اس قابل بنادیا کہ وہ تجارتی بنیادوں پر کپڑے سلائی کرکے چند روپے کماسکتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ شروعات میں ایک ہفتے کے دوران وہ ایک یا دو سوٹ سیتی تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے اس تعداد میں اضافہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وقت اتنے پیسے کمالیتی ہیں کہ گھر اور بھائی بہنوں کے تعلیم کے اخراجات برداشت کرسکتی ہیں، جبکہ اپنی والدہ کی دوائیاں بھی خرید سکتی ہیں۔

جب ہم نے طاہرہ کی توجہ خواتین کے عالمی دن پر مبذول کرائی تو ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو بڑے بڑے ہوٹلوں میں یہ دن منانے کے بجائے خواتین کو تعلیم اور ہنر سکھا کر ان کی مدد کرنی چاہیے۔

طاہرہ نے اپنے بھائی بہنوں کو تعلیم دلوانے اور ٹریننگ کے اخراجات برداشت نہ کرپانے والی لڑکیوں کو مفت سِلائی سکھانا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔

وہ اپنے گاؤں میں ایک ٹریننگ سینٹر کھولنا چاہتی ہیں تاکہ ان جیسی دوسری لڑکیوں کو ہنر سکھا روزگار کے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close