خیبر پختونخواہ

انسانی حقوق کے ماہرین کا قبائلی علاقوں کے انضمام پر بیوروکریسی کے کردار پر تحفظات کا اظہار

یومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے زیرِاہتمام گول میز کانفرنس میں مقررین نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے متعلق پارلیمنٹ کے اقدامات کو سراہا لیکن ساتھ ہی قبائلی علاقوں کے انضمام پر بیوروکریسی کے کردار پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ فاٹا کی نگراں گورننس نے ریگولیشن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ کار کو تسلیم نہیں کیا اور عدالتی اختیارات ڈپٹی کمشنر کو تفویض کردیے۔ گورننس کے قوانین لوکل گورنمنٹ کے اختیارات کو کسی سطح پر قبول نہیں کرتے جبکہ یہ تمام نکات قانون اور آئینی ترمیم کے بعد فراہم کیے گئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے پارلیمنٹ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ فاٹا کی خصوصی حثیت کو ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں 228 ووٹ درکار تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام پارٹیوں کے شکر گزار ہیں کہ 231 ارکان قومی اسمبلی نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا،اب فاٹا کے عوام خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپنے نمائندوں کو خود منتخب کریں گے۔ گول میز کانفرنس کے دیگر مقررین بشمول سینیٹر فرحت اللہ بابر اور افراسیاب خٹک نے فاٹا کے لیے تشکیل دیئے گئے ریگولیشن پر کڑی تنقید کی۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ فاٹا صحافیوں، پارلیمنٹیرین اور سول سائٹی کے لوگوں کے لیے ‘نوگوایریا’ ہے، عدالتوں کا دائرہ کار فوری طور پر قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے۔

انہوں نے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی کہ کمرے میں دو ہاتھی ہیں،ان میں سے ایک فاٹا میں بلیک ہول، جبکہ دوسرا ماضی کی تباہ کن پالیسیاں نافذ کرنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں ‘اچھے’ طالبان امن کمیٹی یا کسی دوسرے نام سے منظرعام پر آجائیں گے۔ اسی ضمن میں افراسیاب خٹک نے موقف اختیار کیا کہ فاٹا اصلاحات بل اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر جلدی باز میں منظور کرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ریگولیشن شہریوں کے لیے موزوں نہیں کیونکہ انصاف کی فراہمی کونسل کرے گی جسے ڈپٹی کمشنر تعینات کرے گا جبکہ کونسل میں کوئی خاتون ممبر بھی شامل نہیں۔ اس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر کے پاس کسی ملزم کو معاف کرنے کا اختیار بھی ہے۔ افراسیاب خٹک نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اور فرنٹیر کور (ایف سی) کے لیے فاٹا کالے دھن جمع کرنے کی آماجگاہ رہی ہے، سیکیورٹی فورسز صرف زمین پر قبضے کی خواہش مند ہے اور بیوروکریسی کو اپنے اختیارات کمزور پڑنے کی فکر لاحق ہے۔ کانفرنس میں فاٹا سے شریک دیگر شرکاء نے رواج کے تصور کی مخالفت کی اور کہا کہ موجودہ دور میں روایات کی بنیاد پر قانونی نظام تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ معروف صحافی سلیم صافی نے کہا کہ قانونی طور پر فاٹا اور پاٹا میں کوئی نظام نہیں ہے، ریاستی ادارے بتدریج فاٹا میں اپنا نظام تشکیل دیں گے جس میں صحت، تعلیم، عدالت اور پولیس کا نظام بھی شامل ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close