خیبر پختونخواہ

انگور اڈہ میں پاک افغان سرحدی گیٹ کھولنے کا فیصلہ

توقع کی جا رہی ہے کہ جمعرات کی شام تک اس راستے سے سرحد کی دونوں جانب گاڑیوں کی آمدورفت بحال کر دی جائے گی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد انگورہ اڈہ کا سرحدی گیٹ چار ماہ پہلے افغان حکومت کی جانب سے بند کردیا گیا تھا۔

جنوبی وزیرستان کے پولیٹکل ایجنٹ ظفر الاسلام نے ٹیلی فون پر

بات کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی گیٹ کھولنے کے لیے پاکستان اورافغانستان کی حکومتوں کی سطح پر حالیہ دنوں میں کئی مرتبہ اجلاس ہوئے جس میں دونوں جانب سے گیٹ کھولنے پر اتفاق کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ سرحد پر تجارت کی بحالی کےلیے ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب آباد وزیر قبائل اور تاجروں کے جرگوں کا انعقاد ہوا جس میں گیٹ کھولنے پر رضامندی ظاہر کی گئی۔

ظفر الاسلام کا مزید کہنا تھا کہ گیٹ کی بندش کے باعث قبائل کو کئی قسم کی معاشی مشکلات کا سامنا رہا جس سے دونوں جانب تاجر بری طرح متاثر ہوئے۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ جمعرات کی شام سے سرحد کی دونوں جانب گاڑیوں کی آمد و رفت بحال کر دی جائے گی۔

پولیٹکل ایجنٹ نے واضح کیا کہ پاکستان کی حکومت پہلے بھی سرحدی گیٹ کھولنے کی حامی تھی اور آج بھی ہے۔

خیال رہے کہ انگور اڈہ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے تقریباً 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس سرحدی مقام کی دونوں جانب برمل کا علاقہ ہے جہاں آر پار احمدزئی وزیر قبائل آباد ہ

چار ماہ پہلے اس پوسٹ پر اس وقت کشیدگی دیکھنے میں آئی جب حکومت پاکستان نے اس چیک پوسٹ پر باقاعدہ سرحدی گیٹ بنا کر اسے افغان حکومت کے حوالے کیا تاہم گیٹ کا قبضہ لینے کے فوراً بعد کابل حکومت کی جانب سے اسے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔

اس سے پہلے بھی اس سرحدی پوسٹ کو بار بار بند کیا جاتا رہا ہے ۔

افغان حکومت ماضی میں انگور اڈہ اور اس کے ساتھ واقع پاکستانی علاقے پر دعویداری ظاہر کرتی آئی ہے جس کی وجہ سے اکثر اوقات اس چیک پوسٹ پر کشیدگی بھی رہی ہے۔ کئی مرتبہ دونوں جانب سے افواج نے ایک دوسرے پر گولہ باری بھی کی جس میں ہلاکتیں بھی ہوچکی ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنوبی وزیرستان کے مقامی قبائل نے اس وقت سرحدی چیک پوسٹ افغان حکومت کو حوالے کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور اس سلسلے میں ان کی جانب سے سرحدی علاقے میں احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انگور اڈہ کے اردگرد علاقے میں سینکڑوں پاکستانی تجارت کرتے ہیں جو اب اس فیصلے کے بعد افغان علاقے میں شمار ہوں گے۔

قبائلیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی پاکستانی شہریت ختم ہو جائے لہٰذا سرحدی گیٹ افغانستان کے حوالے کرنے کے فیصلے کو فوری طورپر واپس لیا جائے۔یں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close