پنجاب

کیا طلاق کے بعد میاں بیوی کا اکٹھے رہنا جائز ہے؟ فتویٰ آ گیا

عالم دن مفتی ارشاد احمد اعجاز نے کہا ہے کہ سماجی دباﺅ سے بچنے کیلئے میاں بیوی اپنی طلاق کو چھپا سکتے ہیں اور ایک ہی گھر میں رہ بھی سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ خاندان کے چند قریبی افراد کو ان کے درمیان علیحدگی کے بارے میں لازمی پتا ہونا چاہئے اور ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے دونوں کے درمیان مکمل اجنبیت قائم رہنی چاہئے اور شریعت کی مکمل پاسداری ہونی چاہئے۔ 
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے دوران ایک سوال کیا گیا کہ ”کیا ایک عورت سماجی دباﺅ سے بچنے کیلئے اپنی طلاق چھپا سکتی ہے؟ “ تو اس کے جواب میں مفتی ارشاد احمد اعجاز نے کہا کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خواتین کو عمر کے اس حصے میں طلاق ہوتی ہے جب ان کے بچے جوان ہو چکے ہوتے ہیں اور علیحدگی کا معاملہ سامنے آنے کی صورت میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ طلاق کے معاملے کو پوشیدہ رکھ کر زندگی گزارنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اس معاملے میں صرف ایک اصول ذہن میں رکھنا چاہئے کہ طلاق کے بعد میاں بیوی کا تعلق ختم ہو جاتا ہے اور وہ دونوں مکمل طور پر اجنبی ہیں اس لئے اگر وہ اجنبیت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ہی گھر میں رہ لیتے ہیں تو شرعاً اس کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ مفتی ارشاد احمد اعجاز نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر بچے بڑے ہیں تو ایک ہی گھر میں ماں بچوں کے ساتھ رہے اور بچوں کے والد الگ کمرے میں رہے اور دونوں کا کوئی تعلق نہ ہو، اگر کوئی ایسی ترتیب بن سکتی ہے جس میں اجنبیت کے اصول کی پاسداری کر لی جائے تب تو شرعاً گنجائش ہے، اگر گھر کے اند ر دو فلور ہیں تو ایک پر والد رہ سکتا ہے اور اس کا آنا جانا گھر کے اندر سے نا ہو اور وہ بالکل اجنبیوں کی طرح رہیںانہوں نے کہا کہ طلاق کے بعد وہ ایک دوسرے کو میاں بیوی ظاہر کریں اور خاندان میں بھی کسی کو اس کا معلوم نا ہو تو یہ کسی صورت درست نہیں ہے۔ سماجی دباﺅ کے حوالے سے شریعت نے جس حد تک اجازت دی ہے وہاں تک تو جایا جا سکتا ہے لیکن اگر سماجی دباﺅ کے باعث کوئی ایسا کام کریں تو شریعت میں حرام ہے تو اس کی کسی صورت اجازت نہیں ہے اور اس کے علاوہ کوئی طریقہ کار وضع کرنا یا اختیار کرنے کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ” طلاق کے بعد میاں بیوی ایک ہی شہر میں الگ الگ رہ رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنی طلاق اعلان نہیں کیا اور کسی تقریب یا شادی بھی ساتھ جاتے ہیں تاکہ شک نہ ہو یا شوہر پاکستان سے باہر چلا گیا اور کوئی عورت سے پوچھے کہ تمہارے میاں کیسے ہیں تو وہ بجائے یہ ظاہر کرنے کے کہ وہ میر ے میاں ہیں نہیں بلکہ تھے تو کیا یہ عمل درست ہے؟“ مفتی ارشاد احمد نے جواب دیا کہ طلاق چھپا کر رہنے میں صرف یہ پابندی ضروری ہے کہ خاندان کے کچھ قریبی لوگوں کو علیحدگی کا علم ضرور ہونا چاہئے کیونکہ اگر کسی ایک کا بھی انتقال ہو جاتا ہے تو انہیں میاں بیوی سمجھا جائے گا اور پھر وراثت اور عدت کے مسائل ہیں، اس لئے قریبی لوگوں کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے اور اگر کوئی عورت سے سوال کرتا ہے کہ تمہارے میاں کیسے ہیں تو وہ اپنے منہ سے اسے اپنا شوہر ہونے کا اقرار نہ کرے البتہ اگر وہ جواب میں اس کی حالت وغیرہ کے بارے میں کوئی جواب دیدتی ہے یا بتا دیتی ہے کہ وہ اس وقت کون سی جگہ پر ہے یا کیا کرتا ہے تو اس کی گنجائش ہے۔ مفتی ارشاد احمد نے کہا کہ میں نے اصولی طور پر یہ عرض کر دیا ہے کہ کوئی بھی ایسا طریقہ جس کے نتیجے میں حرام کا ارتکاب اور شریعت کے خلاف ہو وہ غلط ہے، اگر علیحدگی کے بعد شوہر نے شہر چھوڑ دیا تو بہت اچھی بات لیکن اگر دونوں نے خود کو، اپنے بچوں اور خاندان کو مشکلات سے بچانے کیلئے ایک ہی گھر میں اس طرح سے رہائش رکھ کا انتظام کر لیا کہ دونوں میں مکمل اجنبیت ہے اور دونوں حرام اور حلال کی پاسداری کر رہے ہیں تو اس میں شرعاً گنجائش نکل سکتی ہےنکاح کے اعلان کی طرح طلاق کے اعلان سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بنیادی شرط یہی ہے کہ طلاق کے بارے میں چند لوگوں کو آگاہی ہو کیونکہ اگر صرف میاں بیوی کو ہی پتا ہو گا اور کسی دوسرے شخص کے علم میں یہ بات نہیں ہو گی تو یہ گناہ ہے، جیسے نکاح کے گواہان کی کم از کم تعداد 2 ہے جس کا مقصد صرف یہی ہے کہ ان کے میاں بیوی ہونے کا کسی کو پتا ہونا چاہئے، اسی طرح طلاق کے بارے میں بھی کچھ افراد کو پتا ہونا چاہئے اور انہیں یہ علم بھی ہونا چاہئے کہ دونوں اگر ایک ہی عمارت میں رہ رہے ہیں تو اجنبیت برقرار ہے اور حرام کا ارتکاب نہیں ہو رہا، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ طلاق چھپانے کے پیچھے صرف اور صرف سماجی دباﺅ یا معاشرے کے عتاب سے بچنا ہی مقصود ہو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close