پنجاب

کرنسی کی قدر میں کمی بیشی نے صنعتی سرمایہ داروں کو مشکلات سے دوچار کردیا

لاہور: اقتصادی محاز پر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی بھی رپورٹنگ ہوتی رہی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے پیشگی اقدامات بھی کرتی رہی ہے

آئی ایم ایف پروگرام معطل ہونے کے بعد حکومت نے پیٹرول اور یوٹیلٹی کے نرخوں میں اضافہ بھی کیا۔ اس کا حکومت نے یہ جواز پیش کیا کہ پاکستان کی نسبت دیگر ممالک میں نرخ بلند ہیں۔

کووڈ کے دوران جب تجارتی سرگرمیاں نسبتاً سست تھیں تو روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رہیں۔ تاہم 2021کے آغاز سے روپے کی قدر میں نشیب و فراز کا سلسلہ شروع ہوا، اور پھر مختلف وجوہات کی بنا پر ڈالر کی مانگ میں اضافے کے ساتھ روپے کی قدر گرتی چلی گئی۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ برآمدات کے فروغ کے نقطۂ نظر سے کرنسی کی لچکدار شرح مبادلہ ضروری ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا وزارت خزانہ سے آزاد ہونا ضروری ہے۔ لچکدار شرح مبادلہ کے مثبت نتائج آنے میں وقت درکار ہوگا۔ روپے کا اوور ویلیو ہونا درآمدات کو ارزاں اور برآمدات کو مہنگا کردیتا ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں بھی نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے۔

یہ بھی پڑ ھیں : آئی ایم ایف نے پاکستان کو مزید 50 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی

اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ روپے کی قدر میں گراوٹ کے باوجود برآمدات کے مقابلے میں درآمدات نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی بیشی نے صنعتی سرمایہ داروں کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے کیوں کہ وہ غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

مختصراً یہ کہ سیاسی عدم استحکام اقتصادی غیریقینی میں اضافہ کررہا ہے۔ برآمدات بڑھانے کے لیے ملک میں برآمداتی مصنوعات سرپلس ہونی چاہییں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close