سندھ

پولیس اہلکار وردی میں نہیں تھے، اغواکار سمجھ کر فائرنگ کی: مفرور ملزم

کراچی: مفرور ملزم خرم نثار نے وضاحتی ویڈیو بیان میں انکشاف کیا ہے کہ پولیس اہلکار پولیس وردی میں نہیں تھے، انہیں اغواکار سمجھ کر فائرنگ کی۔

ڈیفنس فیز5 میں پانچ روز قبل فائرنگ کرکے شاہین فورس کے اہلکار عبدالرحمان کو قتل کرکے بیرون ملک فرار ہونے والے ملزم خرم نثار کا وضاحتی ویڈیو بیان سامنے آگیا، ویڈیو بیان میں مفرور ملزم کا کہنا ہے کہ میرا سالہ واقعے کے حوالے سے لاعمل تھا سالے کو علم نہیں تھا کہ بات اتنی بڑھ گئی ہے میں نے اپنے سالے کی مدد سے سفری دستاویزات گھر سے منگوائے تھے جو کہ ایک عام سی بات تھی، سالے کو میں کہا تھا کہ میری لڑائی ہوئی ہے اور کوئی بڑی بات نہیں ہے، میں جلد جا رہا ہوں ویسے مجھے جانا ہی تھا۔

خرم نثار نے کہا کہ عبداللہ شاہ غازی مزار کے قریب جو کچھ میرے ساتھ ہوا مجھ پر الزام لگائے گئے، ایک الزام یہ ہے کہ میری گاڑی میں اسلحہ موجود تھا، کیا پولیس اہلکاروں کو میری گن نظر آرہی تھی؟ دوسرا الزام مجھ پر اغوا کا لگایا گیا کہ بوٹ بیسن سے میں نے کسی لڑکی کواغوا کیا، پہلی بات ہے کہ میں بوٹ بیسن گیا ہی نہیں، راستے میں 100 سے 200 کیمرے لگے ہوں گے کمیروں میں میری ایک بھی تصویر دیکھا دی جائے.

مفرور ملزم خرم نثار کا کہنا ہے کہ مجھے روکنے کا کام شاہین پولیس کے اہلکار کا نہیں تھا, پولیس اہلکار یونیفارم میں بھی موجود نہیں تھا, مجھے روکا گیا تو پولیس اہلکار کے ہاتھ میں گن تھی اور وہ کہہ رہا تھا کہ گاڑی کا گیٹ کھولو, پولیس اہلکار نے زور لگا کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور میں نے گاڑی کے شیشے نیچھے کر کے پوچھا کون ہو تو جواب ملا پولیس والے ہیں، میں نے اہلکار سے کہا اگر آپ پولیس والے ہو تو اپنا آئی ڈی کارڈ دکھاؤ، میں نے کہا اگر آپ اپنا کارڈ شو نہیں کراؤ گے تو میں آپ کو پولیس اہلکار نہیں سمجھوں گا، پولیس اہلکار نے اسی وقت مجھ پر فائرنگ کرنے کی کوشش کی جس پر میں نے گاڑی تھوڑی سی آگے بڑھا دی اور کچھ فاصلے پر جا کر گاڑی روک دی میری گاڑی میں لائسنس یافتہ گن موجود تھی جو میں پکڑ کر گاڑی کے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔

مفرور ملزم کا ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ گاڑی کے باہر پولیس اہلکار میری اور میں ان کی ویڈیو بناتا رہا میری ویڈیو صحیح بن نہیں پائی لیکن پولیس اہلکار کی ویڈیو بن گئی جس پر میں نے پولیس اہلکار کو کہا کہ موبائل بلوالو کس تھانے جانا ہے میں چلتا ہوں، لیکن پولیس اہلکار مجھے تھانے لے جانا نہیں چاہ رہے تھے، پولیس اہلکار جب تھانے جانے پر راضی ہوگئے تو راستے میں ایک پولیس اہلکار کہنے لگا تھانے کے بجائے کہیں اور جانا ہے، تو میں نے کہا تھانے جا کر مجھے یقین ہو جائے گا کہ تم پولیس اہلکار ہو لیکن اس نے میری بات نہیں مانی اور زبردستی دوسرے راستے لے گیا راستے میں نے جسے ہی یو ٹرن سے گاڑی موڑنا چاہی تو پولیس اہلکار نے گاڑی کا اسٹیرنگ پکڑ لیا اور گاڑی نیوٹرل کردی۔

ملزم نے کہا کہ جیسے ہی گاڑی نیوٹرل ہوئی میں گاڑی سے اترگیا تو پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ہم تجھے وہاں ضرور لیکر جائیں گے اور تیرے ساتھ بہت برا کریں گے میں ڈر گیا میں نے کہا میں نہیں جاؤ گا میری تھانے جانے کی بات ہوئی ہے، پولیس اہلکار نے گاڑی کے اندر داخل ہو کرمجھ پر فائر کردیا لیکن پولیس اہلکار کی گولی نہیں چل سکی گاڑی سے باہر نکل کر مجھے باتوں میں لگا کر پولیس اہلکار اپنے انگوٹھے سے پستول کا چیمبر صحیح کرنے لگا تاکہ دوبارہ مجھ پر فائرنگ کرسکے، میں ڈر گیا تھا مجھے اپنے بیوی بچوں کی یاد آگئی میں نے اپنے دفاع میں پولیس اہلکار پر فائرنگ کردی۔

مفرور ملزم کا کہنا ہے کہ میرا مقصد پولیس اہلکار کو مارنا نہیں بلکہ اپنی جان بچانی تھی میں نے کیا اپنی جان بچا کر گناہ کیا؟ میں اور کیا کرسکتا تھا؟ مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ اصلی پولیس اہلکار ہے بھی یا نہیں! مجھے مجوراً گولی چلانا پڑی، مجھے پولیس اہلکار کو مارنا ہوتا تو میں شروع میں ہی مار دیتا جب شروع میں پولیس اہلکاروں نے زور سے گاڑی کا دروازہ کھولا تو میں سمجھا تھا کہ اغوا کار ہیں، میں اپنے بوڑھے والدین سے ملنے آیا تھا اور اکثر آتا جاتا رہتا ہوں، میری گن لائسنس یافتہ ہے اور گزشتہ 18 سال سے میرے پاس ہے لیکن میں نے 18 سال میں کبھی بھی گن کا غلط استعمال نہیں کیا ورنہ میرا ریکارڈ نکل آتا، میں نے اپنی گن کا اپنی جان کی دفاع کے لیے استعمال کی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close