سندھ

ڈاکٹر صغیر صدیقی کا ایم کیو ایم چھوڑنے کا اعلان

کراچی:  ایم کیو ایم کے رابطہ کمیٹی کے رکن، سابق صوبائی وزیر صحت سندھ اور موجودہ ایم پی اے ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی نے پارٹی چھوڑ کر مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کے ساتھ شمولیت کا اعلان کردیا اور کہا ہے کہ جس قسم کے لرزہ خیز واقعات میں نے دیکھے ہیں میرا ضمیر مزید اجازت نہیں دیتا کہ ایک ایسی پارٹی کا حصہ رہوں جہاں بات کہہ کر مکر جانا پھر معافیاں مانگنا عام بات ہو۔ عزت نفس بیچنے کا ٹھیکہ کسی نے کسی کو نہیں دیا نشے میں دھت ہوکر ایسی باتیں کی جاتی تھیں جو کوئی بھی اپنی بہن بیٹی کے ساتھ نہیں کرسکتا ۔صرف شناختی کارڈ دیکھ کر بچوں کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں اور لوگوں کو مارا گیا۔خدا کی قسم میں آج تک وہ ویڈیو نہیں دیکھ پایا جس میں ایک بچہ جو لیس کاکام کرتا ہے اس کو اٹھاکر بد فعلی کی گئی اور تین دن بعد اس کی لاش ملی ۔
کلفٹن میں مصطفیٰ کمال کے گھر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی نے کہا کہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے شانہ بشانہ پاکستان کی ترقی کیلئے مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہوں سندھ ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا مجھے ان کی سوچ اتنی مثبت لگی کہ میں خود چل کر ان کے پاس آیا ہوں ۔ پچھلے چند سالوں سے ظلم و زیادتی ہوتے دیکھ رہا ہوں جس کے بعد میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ اپنے ضمیر کو مزید خواب آور ادویات کے ذریعے سلاسکتا۔میرا ان دونوں سے پہلے کبھی بھی کوئی رابطہ نہیں تھا ہر روز خبریں سنتے تھے کہ آج یہ ہورہا ہے اور آج یہ ہوگاہمیں راتوں کو بلابلاکر بتایا جاتا تھا کہ یہ ہورہا ہے لیکن ہوتا کچھ نہیں تھا ۔

انہوں نے کہا کہ تمام لوگوں کو پیغام دیتا ہوں کہ آج میں اس قافلے میں شامل ہوکر روایت توڑ رہا ہوں باضمیر ضرور لوگ یہاں ضرور آئیں گے، یہاں اتنے لوگ شریک ہونگے کہ پریس کانفرنسز کم پڑ جائیں گی۔ بحیثیت پاکستانی مجھے اپنا کردار صاف اور واضح طور پر ادا کرنے کی ضرورت ہے سیاست میں فون کیپنگ نہیں ہونی چاہیے، فون آیا تو لرزہ طاری ہوگیا میں بھی مصلحتوں کا شکار رہا ہوں میں کسی سے نہیں کہتا کہ کچھ بولو مگر میں کہتا ہے کہ اپنی آنکھیں کھولو۔

جب جب آپ پر برا وقت آیا آپ نے مہاجروں کو استعمال کیا لیکن جب کارکنوں اور شہدا کے ورثا کچھ کہہ دیں تو انہیں دھکے مار کر باہر نکال دیں۔ مجھے آج بھی وہ وقت نہیں بھولتا جب کراچی کے شہریوں کو آنکھیں کھولنے سے پہلے 30، 30 لاشیں ملتی تھیں ۔میں کارکنوں کو چھڑانے کیلئے بات کرتا رہا ہوں اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر یہ بات کرتا رہا کہ کارکنوں کو مت مرواو¿ انہیں خدا کے واسطے ٹشو پیپر کی طرح استعمال مت کرو۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close