سندھ

کراچی تجاوزات آپریشن: سپریم کورٹ نے گھروں، کاروباری جگہوں پر آپریشن فی الحال روک دیا

کراچی: سپریم کورٹ نے شہر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں گھروں اور کاروباری جگہوں سے تجاوزات ہٹانے کا عمل فی الحال روکتے ہوئے کل صبح تک میئرکراچی، وفاقی اور صوبائی حکومت سے پلان طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کی پارکوں پر قبضے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے سماعت کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے تجاوزات آپریشن کے خلاف نظر ثانی اپیل کو بھی یکجا کرلیا۔

میئر کراچی کی تاخیر سے آمد پر عدالت کا اظہارِ برہمی

سماعت کے سلسلے میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور میئر کراچی وسیم اختر عدالت میں ہوئے، میئر کراچی کے تاخیر سے پیش ہونے پر چیف جسٹس نے برہمی کا بھی اظہار کیا۔

سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے 26 اکتوبر کا آرڈر ہے، اس حوالے سے دو احکامات دیے جاچکے ہیں، اس حکم میں ایمپریس مارکیٹ کے حوالے سے حکم دیا تھا۔

اے جی سندھ کا کہنا تھا کہ لوگوں کا گزر بسر ہے، لوگ دکانوں میں ہی سوتے ہیں، حکومت سندھ لوگوں کو جلد از جلد آباد کرنا چاہتی ہے۔متبادل دینے سے متعلق ہم نے کہیں منع نہیں کیا: چیف جسٹس پاکستان

اے جی سندھ کے دلائل پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت ایمپریس مارکیٹ کے ایشو کو ماڈل ایشو بنانا چاہتی ہے، کیا ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات ختم کردی گئی ہیں؟ اس پر اے جی سندھ نے بتایا کہ جی ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات ختم کرادی گئی ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ تو نہیں کہ سکتے ناکہ وہ دوبارہ تجاوزات کرلیں، اب آگے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، متبادل سے متعلق ہم نے کہیں منع نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ وسیم اختر کہاں ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ راستے بند ہیں وہ آرہے ہیں، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا وہ ٹرام سے آرہے ہیں؟ باقی لوگ بھی تو آئے ہوئے ہیں۔ متاثرین کی بحالی سندھ حکومت کا کام ہے: سپریم کورٹ

سماعت کے دوران میئر کراچی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ اور اطراف میں تجاوزات ختم کرادی ہیں، اس پر عدالت نے کہا کہ تجاوزات کا خاتمہ مئیر کراچی کا کام ہے، ایمپریس مارکیٹ کے حوالے سے معاملہ ختم ہوگیا، اب حکومت سندھ کا کام ہے، ایمپریس مارکیٹ سے متعلق مئیر کراچی نے خود کہا تھا کہ پہلے یہاں سے تجاوزات ختم کرائیں گے، ہم نے ماڈل کے طور پر ایمپریس مارکیٹ کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا، اب متاثرین کی بحالی سندھ حکومت کا کام ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فٹ پاتھ اور سڑکیں کلیئر کرانے کا حکم واضح تھا، ہم نے خالی کرانے کاحکم دیا تو یہاں ہنگامہ شروع ہوگیا، لوگ احتجاج شروع کردیں اور ہم ریاست کی رٹ ختم کردیں، کیا اس طرح غیر قانونی قابضین کو چھوڑدیں؟ یہاں سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کشمیر روڈ سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا جہاں مختلف تجاوزات قائم کردی گئی تھیں، 35ہزار پلاٹس پر قبضے سے متعلق کے ڈی اے ڈائریکٹر نے رپورٹ جمع کرادی تھی، عدالت نے ڈائریکٹر کے ڈی اے کو ابتدائی رپورٹ 2 ماہ رپورٹ دینے کا حکم دیا تھا اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا ان میں زیادہ تر گھر ہیں۔
کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کی مصلحت آڑے آرہی ہے:
چیف جسٹس پاکستان

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے لوگوں سے خالی کراتے ہیں تو لاء اینڈ آرڈر پیدا ہوجاتا ہے،گورنر سندھ نے فون کیا مجھے کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے،  سیاسی مفادات آگے آگئے ہیں، ہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کی مصلحت آڑے آرہی ہے، اب اگر یہ کام روکا تو کل کو یہی لوگ ایمپریس مارکیٹ میں دوبارہ آجائیں گے، اس طرح آپ فلاحی اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ وسیم اختر اپنا سیاسی مستقبل داؤپر لگاکر کام کررہے ہیں، وہ اپنے ووٹرز کے سامنے کھڑے ہیں، اب وفاقی حکومت بھی سامنے آگئی ہے، ہم اس ملک میں قانون کے حکمرانی چاہتے ہیں، اگر کوئی پلان ہے تو مل کر بنا لیں۔

میئر کراچی نے عدالت سے پوچھا کہ گھروں کو ابھی کیا توڑا جائے؟ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے کوئی اس حوالے سے حکم دیا تھا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ میئر کراچی، وفاقی اور صوبائی حکومت بیٹھ کر لائحہ عمل بنا لیں، ہم تجاوزات کے خاتمے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، تینوں حالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ہم تجاوزات کے خاتمے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے: جسٹس ثاقب نثار

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ایک لائحہ عمل بنا کر ہم دیکھ لیتے ہیں، اس پر عدالت نے ہدایت دی کہ چند گھنٹوں میں پلان بنا کر لائیں، میئر کراچی نے بتایا کہ پلان بنا ہوا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے مؤقف اپنایا کہ میئر کراچی نے بحالی کا پلان نہیں بنایا ہوا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ اگر آپ سمجھتے ہیں ہم یہ روک دیں گے تو ایسا نہیں ہوسکتا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ بہت اسپیڈ سے توڑے جارہے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو تو پھر اسے سراہنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گھر اور کاروباری جگہوں سے تجاوزات کو فی الحال نہ گرائیں، کل صبح تک میئرکراچی، وفاقی اور صوبائی حکومت پلان بنا کر لائیں۔

عدالت نے وفاقی، صوبائی حکومت اور میئر کراچی کو مل بیٹھ کر معاملات دیکھنے کا حکم دیا۔وفاق، سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ سے پلان طلب

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ تینوں بیٹھ جائیں، آج رات 12 بجے یہاں آجائیں، ہم رات یہیں بیٹھے ہیں، کل صبح ہم تھر جا رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ تینوں حکام ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرکے آئیں۔

عدالت نے تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق میئر کراچی وسیم اختر سے کل رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے مزید حکم دیا کہ قومی عجائب گھر کی عمارت کو نہ گرایا جائے نئی تعمیرات ختم کریں۔

عدالت کا اویس مظفر کو کل پیش کرنے کا حکم

سماعت کے دوران شاہ لطیف ٹاؤن کے رہائشی کی شکایت پر عدالت نے پی پی رہنما اویس مظفر ٹپی کو کل پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

رہائشی نے شکایت کی کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے سیکٹر دس میں اویس مظفر ٹپی نے قبضہ کیا ہوا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کون ہے ٹپی ٹپی، یہ ٹپی جو بھی ہے کل پیش کریں۔

وسیم اختر کی میڈیا سے گفتگو

کیس کی سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میئر کراچی وسیم اختر نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے کے ایم سی ،وفاق اور سندھ حکومت کو وقت دیا ہے کہ مل بیٹھیں اور عدالت کو رپورٹ جمع کرائیں، عدالت نے کل صبح ساڑھے 8 بجے رپورٹ مانگی ہے تاکہ مزید احکامات دے سکے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close