کھیل و ثقافت

قحط زدہ علاقے سے ریو اولمپکس تک

ریو اولمپکس میں کشتی رانی کے لیے کوالیفائی کرنے والے واحد انڈین کشتی راں دتو بھوکنال ہیں۔ہندی کے ودت مہرہ نے قحط زدہ گاؤں سے دنیا میں کھیلوں کے سب سے بڑے مقابلے تک ان کے سفر کے بارے میں گفتگو کی۔

جنوبی کوریا میں گذشتہ ماہ منعقد ہونے والے ایشین اینڈ اوشنیا اولمپک کوالیفیکیشن ریگیٹا مقابلے میں بھوکنال نے انفرادی کشتی رانی کے مقابلے میں نقرئی تمغہ جیت کر اولمپکس کے لیے کوالیفائی کیا ہے۔

لیکن انھیں جشن منانے کا بہت کم وقت ملا کیونکہ انھیں فورا ہی اپنی بیمار ماں کے لیے واپس آنا پڑا۔

انھوں نے کہا: ’جنوبی کوریا سے واپسی کے بعد اپنی کامیابی کے بارے میں اپنی ماں کو بتانے کے لیے میں ہسپتال گیا لیکن وہ بیماری کے سبب مجھے نہیں پہچان سکیں۔‘

لیکن بھوکنال پر امید ہیں کہ وہ اپنے خوابوں کے درمیان اپنے گھریلو مسائل کو حائل نہیں ہونے دیں گے۔

سالہ بھوکنال مغربی ریاست مہاراشٹر کے قحط زدہ علاقے تالے گاؤں سے آتے ہیں۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران اس علاقے کو کئي بار خشک سالی کا سامنا رہا ہے اور یہاں کے کسانوں کی زندگی تلخ ہوئي ہے جن میں سے ایک اس کشتی راں کا کنبہ بھی ہے۔

وہ اپنے والد کو کاشتکاری اور کنویں کھودنے میں مدد کیا کرتے تھے اور خشک سالی کی زد میں آنے والے علاقے میں اس ہنر کی بہت قدر تھی۔

انھوں نےبتایا: ’جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا تو میرے گھر کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اور تبھی سے میں نے اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کیا۔‘

پانچ افراد پر مشتمل کنبے کے لیے باپ بیٹے کی جوڑی نے جی توڑ محنت کی لیکن سنہ 2011 میں ان کے والد کا انتقال ہو گيا اور انھیں اپنے گاؤں سے باہر نوکری کی تلاش میں نکلنا پڑا۔

انھیں ایک پٹرول سٹیشن پر پانچ ہزار ماہانہ کی اجرت پر کام ملا جہاں سے ان کی قسمت کروٹ لی کیونکہ وہ ایسے لوگوں سے ملنے لگے جو فوج میں شامل ہونے کے لیے کوشاں تھے۔

انھوں نے کہا: ’میں ان سے متاثر ہوا اور میں نے بھی فوج میں شمولیت کے بارے میں خواب دیکھنا شروع کر دیا۔‘

اور ان کا خواب اگلے سال پورا ہوا جب انھیں فوج میں منتخب کرلیا گيا۔ ان کے بعض سینیئرز نے انھیں ان کے بلند قدو قامت کی وجہ سے انھیں کشتی رانی کا مشورہ دیا۔

تاہم انھوں نے کہا: ’میں کبھی بھی کشتی راں بننا نہیں چاہتا تھا کیونکہ مجھے پانی سے ڈر لگتا تھا اور مجھے تیرنا بھی نہیں آتا تھا۔ درحقیقت میں نے پہلی بار پونے کے فوجی کیمپ میں ہی پانی کی کوئی بڑی چيز دیکھی تھی۔‘

انھیں ابھی بھی تربیت کا پہلا سیشن پوری طرح یاد ہے۔’کشتی کئی بار پلٹی اور سیفٹی والے مجھے واپس کشتی میں بٹھاتے رہے۔ میں نے کہا کہ یہ میرے بس کا نہیں۔

ترقی کی رفتار سست تھی اور تین ماہ میں جاکر کہیں انھوں نے کشتی کھینا سیکھ لیا۔

انھوں نے کہا اور مجھے کشتی راں بننے میں ایک سال لگ گئے لیکن پھر انھیں اس کھیل میں لطف آنے لگا۔

’پہلے پہل میں خوفزدہ تھا پھر رفتہ رفتہ میں پانی کے قریب آیا اور یوں محسوس ہوا کہ اس سے میرا بہت گہرا تعلق تھا۔‘

اپنے پہلے بڑے ٹورنامنٹ انڈین نیشنل گیمز (2014 )میں انھوں نے دو طلائی تمغے حاصل کیے اور اب وہ ریو اولمپکس میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن یہ ان کی آخری خواہش نہیں ہے بلکہ ان کی آخری خواہش ہے کہ کاش وہ اپنے گاؤں کے لیے پانی لا سکتے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close