کھیل و ثقافت

دس سالہ لڑکی عافیہ تیراکی کی دنیا میں اپنا نام بنانے کے لیے تیار

شمالی برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے قریبی علاقے آلٹرنکھم سے تعلق رکھنے والی عافیہ پہلے ہی اپنی ساتھی پاکستانی تیراک کے بنائے ہوئے کئی قومی ریکارڈ توڑ چکی ہیں۔

انھیں امید ہے کہ اگر وہ اولمپکس میں برطانیہ کی نمائندگی نہ کر سکیں تو ایک نہ ایک دن ضرور پاکستان کی جانب سے نمائندگی کریں گی۔

دولت مشترکہ کھیلوں کے لیے مانچسٹر میں بنائے گئے ایکواٹکس سینٹر میں عافیہ نے پریکٹس کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس سے لطف اندوز ہوتی ہوں کیونکہ تیراکی آپ کو فٹ اور صحت مند رکھتی ہے۔‘

عافیہ نے گذشتہ سال سے ہی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا ہے جب ایک مقامی ٹیم نے ان کی نشاندہی کی تھی۔

’بعض کوچز نے کہا کہ میں بہت اچھی ہوں اس لیے مجھے دی سٹی آف مانچسٹر کی ٹیم میں شامل ہو جانا چاہیے، مجھے بہت عجیب لگا اور میں نے بہت نروس بھی محسوس کیا۔

الزبتھ فٹزگیرلڈ کا جو کہ مانچسٹر تیراک ٹیم کی ڈویلپمنٹ کوچ ہیں، عافیہ کے بارے میں کہنا ہے کہ ’عافیہ اپنے کام پر اتنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ وہ ایک سال میں تین درجہ اوپر گئی ہیں۔ جبکہ عام طور پر آپ ایک سال میں ایک درجہ ہی اوپر جا پاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’عافیہ اتنی سخت محنت کر رہی ہیں جتنی ممکنہ طور پر وہ کر سکتی ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اب میڈل جیت رہی ہیں۔‘

عافیہ تقریباً ہر مقابلے میں ٹرافی جیت چکی ہیں اور پہلے ہی اپنی پاکستانی ساتھی کے بنائے قومی ریکارڈ توڑ چکی ہیں۔

دس سالہ تیراک عافیہ کے والد حامد کا کہنا ہے کہ ’بہترین صورتحال یہ ہوگی کہ ٹی شرٹ پاکستانی ہو اور ٹریک سوٹ انگلینڈ کا، لیکن اس ماحول میں یہ ممکن نہیں۔ اس لیے وہ اب پاکستان کے لیے تیراکی کریں گی کیونکہ وہ ایشیائی کھیلوں میں شرکت کر سکیں گی۔‘

تاہم تیراکی ایک ایسا کھیل ہے جس میں ایشائی لڑکیاں پیشہ وارانہ درجے پر حصہ نہیں لیتی ہیں۔

اس کی ایک جھلک ایمیچور سوئمنگ ایسوسی ایشن کے پاس درج ناموں میں دکھائی دیتی ہے۔ ان اعداد وشمار کے مطابق ایک لاکھ 80 ہزار ارکان میں سے صرف پچاس فیصد نے اپنی معلومات فراہم کی ہیں لیکن ان میں سے 18 پاکستانی خواتین ہیں جن کی عمریں آٹھ سال سے زیادہ ہیں اور وہ سب عافیہ کی طرح مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں۔

عافیہ لنکاشائر کاؤنٹی چیمپیئن شپ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہیں جہاں ان کا مقابلہ علاقے کی بہترین تیراکوں سے ہوگا۔

وہ ہفتے میں دس گھنٹے تربیت کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ آسان نہیں ہے۔

’میرا ٹائم ٹیبل بہت سخت ہے، اور اس سے میرا ہوم ورک متاثر ہوتا ہے۔ مجھے اپنے امتحانات کے لیے بھی تیاری کرنا ہوتی ہے۔ میں ٹی وی دیکھنے کی بجائے پڑھائی کرتی ہوں۔‘

انھوں نے اپنے لیے مشکل ہدف رکھا ہوا ہے اور اولمپک جتینے والی سابق امریکی تیراکوں کو اپنے لیے آئیڈیل بنا رکھا ہے۔

’کیٹی لیڈسکی 15 سال کی تھیں جب انھوں نے میڈل جیتا اور مائیکل فلیپ 19 یا 20 سال کے تھے۔ مجھے ان تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کرنا ہوگی۔‘

ان کو ایک دن پاکستان یا برطانیہ کی نمائندگی کرنے کا اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ابھی طویل انتظار کرنا ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close