کھیل و ثقافت

پاکستان میں ٹیلنٹ نہیں ہے

شاہد آفریدی کا کہنا ہے پاکستان کرکٹ بورڈ میں بہت کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ کچھ کہیں گے تو اگلی صبح انھیں نوٹس مل جائے گا

شاہد آفریدی سے جب یہ پوچھا گیا کہ بورڈ کرکٹ کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے کیا کر رہا ہے اور کون سی چیزیں ٹھیک ہونی چاہیئں تو شاہد آفریدی کا کہنا تھا ’اس وقت ان کے پاس سینٹرل کنٹریکٹ ہے لہٰذا اگر وہ کچھ کہیں گے تو انھیں نوٹس مل جائے گا اس لیے وہ مناسب وقت پر بات کریں گے لیکن ان کے بقول بہت کچھ ٹھیک ہونا ہے۔محمد عامر کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں سزا کے بعد پہلی بار لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلنے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے شاید آفریدی کا کہنا تھا ’ میرے خیال میں یہ گوروں کا پرانا طریقہ ہے کہ وہ کسی بھی ایسے کھلاڑی جن سے ان کو تھوڑی پرابلم ہوتی ہے کہ وہ ٹف لائم دے گا تو یہاں کا میڈیا اس کھلاڑی کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔

انھوں نے کہا ’میں سمجھتا ہوں کہ محمد عامر کم عمری میں کافی میچیور ہیں اور ذہنی طور پر ایک مضبوط لڑکے ہیں اور مجھے امید ہے کہ ان سے جو امیدیں ہیں وہ اس پر پورا اتریں گے۔‘

اپنی ریٹائرمنٹ کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میں کبھی بھی اپنے آپ کو ٹیم کے اوپر بوجھ رکھ کر کھیلا ہی نہیں ہوں۔ مجھے اللہ تعالی نے بڑی عزت سے کھلایا ہے، عزت سے ہی کھیلوں گا اور عزت ہی سے کرکٹ چھوڑوں گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پہلے ان کا ارادہ یہ تھا کہ ایک اچھی ٹیم بنا کر ریٹائر ہوں لیکن ایسا نہیں ہو سکا پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ اگر موجودہ ٹیم کے کھلاڑی کھیل سکتے ہیں تو میں ان سے ابھی بھی بہتر ہوں۔ اسی لیے میں نے کپتانی چھوڑ دی کیونکہ ایک کھلاڑی کی حیثیت سے میں ابھی بھی ان سے بہت بہتر ہوں۔

ایک سوال کہ اگر انھیں پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں سلیکٹ نہ بھی کیا گیا تو آپ کو پروا نہیں ہے تو انھوں نے کہا ’مجھے کوئی ایشو نہیں ہے۔‘

ٹیم سلیکشن میں میرٹ کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟ اس بارے میں شاہد آفریدی کا کہنا تھا ’ جس طریقے کا ٹیلنٹ اس وقت سامنے آ رہا ہے اور جس کے حوالے سے ہم بہت باتیں کرتے کہ پاکستان میں بڑا ٹیلنٹ ہے۔ سوری نو ٹیلنٹ۔ پاکستان میں ابھی وہ ٹیلنٹ نہیں ہے جس لیول کی کرکٹ کی ڈیمانڈ ہے کھلاڑیوں کی۔‘

خواتین کرکٹ ٹیم کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ اس پر شاہد آفریدی نے مسکراتے ہوئے کہا پہلے مردوں کی ٹیم کو تو ٹھیک کر لیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر مردوں کے لیے سہولیات نہیں تو خود سوچیں کہ بیچاری خواتین کرکٹرز کن حالات میں کھیل رہی ہوں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close