کھیل و ثقافت

پاکستان کو خود پر عدم اعتماد لے ڈوبا

دوسرے ٹیسٹ میچ میں اپنی ٹیم کی شکست کے بعد پاکستانی کرکٹ کے شائقین یقیناً خود کو ایک تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے بچ نکلنے والے فرد سا محسوس کر رہے ہوں گے۔ وہ ملبہ جس میں ہماری وہ بولنگ دفن ہوئی جس کی تعریف میں لوگ رطب السان تھے۔ یہیں ہمارا وہ ٹاپ آرڈر دفن ہے جسے خود پر عدم اعتماد لے ڈوبا اور ساتھ ہی وہ کیچ جو ہم نے چھوڑے اور جن میں سے ہر ایک ہمارے دل پر ایک براہِ راست وار تھا۔

انگلینڈ سے ان کی سرزمین پر اتنے بڑے فرق سے شکست کھانا تاہم کوئی عجب بات نہیں۔ اس صدی کے دوران انگلش ٹیم اپنے گھر میں مخالفین کو عبرتناک شکست دیتی رہی ہے۔ ان میں سے کچھ ایسی شکستوں کے بعد مزید خراب کھیلے اور کچھ نے ہمت نہ ہاری اور منہ توڑ جواب دیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کا ارادہ کیا ہے؟

اس شکست کے بعد ٹیم میں تبدیلی کی بات ہو سکتی ہے، چاہے وہ ایک اور بولر کو کھلانے کی بات ہو یا اوپنرز بدلنے کی۔ مگر میرے خیال میں یہ تبدیلیاں بےوقوفی ہوں گی۔

یہ میدان میں اتاری جانے والی بہترین پاکستانی ٹیم ہے جسے اب اعتماد درکار ہے کیونکہ ٹیم میں اس کی ہی کمی ہے۔ اس کے بولر اولڈ ٹریفرڈ کی پچ کے باؤنس کو سمجھنے میں ناکام رہے اور نتیجہ ان کی لینتھ میں دکھائی دیا۔ بلے بازوں کے لیے بھی باؤنس مشکلات لایا اور وہ گھومتی گیند سے زیادہ اٹھتی ہوئی گیندوں کا شکار بنے۔

لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ مصباح الیون نے اپنی سب سے بڑی طاقت یعنی صبر کا استعمال نہیں کیا۔ اگر اس ٹیم کے خلاف کوئی بھی ٹیم چار رنز فی اوور کی اوسط سے سکور کرے، تو وہ ایک لحاظ سے میچ جیت ہی چکے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے کریڈٹ الیسٹر کک اور جو روٹ کو جاتا ہے جنھوں نے نہ صرف شاندار بلے بازی کی بلکہ مخالف ٹیم کو غلطیوں پر مجبور بھی کیا۔

ان کی کارکردگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی بلے باز ہمیشہ سکور کارڈ سے خوفزدہ ہو کر ہی کھیلتے رہے اور یہ ان کے آؤٹ ہونے کے انداز سے بھی صاف نظر آتا تھا۔ انگلش ٹیم اپنے مخالفین کا دم گھوٹنے میں کامیاب رہی اور اس نے پاکستان کو شکست کا وہی ذائقہ چکھا دیا جو خود اس نے لارڈز میں چکھا تھا۔

دیکھا جائے تو زیادہ تر پاکستانی مداحوں کے لیے دو ٹیسٹ میچوں کے بعد سیریز کی ایک ایک سے برابری ہی متوقع سکور لائن تھی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آخری ٹیسٹ میچ اوول میں ہے جہاں کی پچ ان کی ٹیم کی صلاحیتوں سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔

لیکن یہ لازم ہے کہ پاکستانی ٹیم برمنگھم میں اگلے میچ سے قبل اپنی بنیادی غلطیوں کو سدھارے۔ یہ ایسی ٹیم نہیں جو تباہ ہو چکی ہے اگرچہ وہ ایسا محسوس ضرور کر رہی ہوگی۔

حقیقت یہ ہے کہ لارڈز میں ایک ڈرامائی فتح کے بعد اولڈ ٹریفرڈ کی شکست وہ سچائی ہے جس کا سامنا پاکستانی ٹیم کو پہلے کر لینا چاہیے تھا۔

انگلینڈ اپنی سرزمین پر ایک مضبوط ٹیم ہے اور پاکستان کے خلاف گذشتہ سات میں سے چھ ٹیسٹ میچوں میں شکست کے بعد وہ اب رکنے والی نہیں۔

لیکن پاکستانی ٹیم کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس میں وہ صلاحیت اور مہارت ہے جس کی مدد سے وہ انگلینڈ کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close