دنیا

وہ شرمناک میلہ جس میں مرد قبیلے کے دوسرے مردوں کی بیویاں چُراتے ہیں

نیامے: دنیا بھر میں میلے منعقد کئے جاتے ہیں جن کا مقصد ہنسی خوشی اور تفریح ہوتا ہے لیکن افریقی قبائل ووڈابے (wodaabe)  ایک ایسا سالانہ میلہ منعقد کرتے ہیں جس کا واحد مقصد شرمناک کھیل کھیلنا ہوتا ہے۔ ووڈابے قبائل کے لوگ کیمرون، سنٹرل افریقی ریپبلک، چاڈ اورنائجیریا میں خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے ہیں لیکن ستمبر کے مہینے میں گیریوال نامی میلے کیلئے ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ میلے کی جگہ کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور اس کی تاریخ سے کچھ دن پہلے اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ میلے میں شرکت کے لئے قبیلے کے مرد خوب تیاری کرتے ہیں اور اپنے چہروں پر سرخ غازہ مل کر اور سر پر شتر مرغ کے پر لگا کر ایک بیوٹی پریڈ میں حصہ لیتے ہیں۔ ان مردوں کی خوبصورتی کا فیصلہ قبیلے کی تین خوبصورت ترین عورتیں کرتی ہیں جن کے ذمے سب سے خوبصورت مرد کا انتخاب ہوتا ہے۔ جس مرد کو خواتین منصفین منتخب کرتی ہیں اسے جنسی دیوتا کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے اور وہ جس عورت کے ساتھ اور جتنی عورتوں کے ساتھ چاہے جسمانی تعلق استوار کرسکتا ہے۔
 
میلے کا مزید شرمناک پہلو یہ ہے کہ اس میں شریک مرد دوسرے مردوں کی بیویوں کو چرانے کے ارادے سے آتے ہیں۔ دراصل یہ چوری مکمل طور پر قبیلے کی خواتین کی مرضی سے ہوتی ہے۔ بنی سنوری خواتین کے سامنے مردوں کی قطار گزرتی ہے اور وہ اپنی پسند کے کسی بھی مرد کے کندھے پر تھپکی لگاتی ہیں اور اس کے ساتھ گھنی جھاڑیوں کے پیچھے چلی جاتی ہیں، خواہ وہ پہلے سے شادی شدہ اور بچوں والی ہوں۔ یہ میلہ سات دن چلتا ہے اور ساتوں دن یہی مشغلہ جاری رہتا ہے۔

ووڈابے قبائل میں خواتین کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جتنے مردوں کے ساتھ چاہیں تعلق رکھیں اور عموماً وہ نوعمری میں ہی اپنی پسند کے لڑکے کے ساتھ شادی کرلیتی ہیں جسے teegal کہا جاتا ہے۔ اگر ان کے والدین ان کی شادی کردیں تو اس تعلق کو Koogal کہا جاتا ہے۔ جونہی یہ خواتین کسی مرد سے بیزار ہوں تو اسے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ ہولیتی ہیں۔ اگر کسی خاتون کو سال بھر کوئی نیا مرد نہ ملے تو وہ سالانہ میلے میں کسی نوجوان کے کندھے پر تھپکی لگاتی ہے اور وہ نوجوان اسے چوری کرکے لے جاتا ہے۔ ووڈابے قبائل میں دوسروں کی بیویاں چرانا جرم نہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ سالانہ میلے میں بعض مرد تو 30 سے 40 خواتین چرا لیتے ہیں، یا یوں کہئے کہ 30 سے 40 خواتین ایک مرد کے ہاتھوں اپنی مرضی سے چوری ہوجاتی ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close