دنیا

اردوغان پر نظم کے بعد جرمن طنز نگار سکیورٹی حصار میں

ترکی کے صدر طیب اردوغان پر ایک طنزیہ اور فحش نظم پڑھنے کے بعد جرمنی کے معروف طنز نگار جان بوہیمرمین پر حملے کے خدشے کے پیش نظر انھیں پولیس کی نگرانی میں رکھا جارہا ہے۔

پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کی حفاظت کی غرض سے ان کے مکان کے سامنے پولیس کی ایک کار کھڑی کی گئی ہے۔

ابھی فوری طور پر تو یہ واضح نہیں ہے کہ بوہیمرمین کو کوئی واضح خطرہ لاحق ہے یا انھیں ایسی کوئی دھمکی ملی ہے لیکن کولون کی پولیس نے جرمن میڈیا کو بتایا ہے کہ ’اگر آپ کسی چیز کو مسترد نہیں کر سکتے تو پھر اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہوتا ہے۔‘

بلڈ ویب سائٹ کے مطابق طنز نگار اور ان کی فیملی کو بظاہر ترکی کے صدر طیب اردوغان کے حامیوں سے خطرہ لاحق ہے۔ اس کے مطابق جان بوہیمرمین نے اس سلسلے میں حفاظت کے لیے کوئی درخواست نہیں دی بلکہ یہ قدم تجزیہ کرنے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔

ادھر صدر اردوغان نے طنز نگار کے خلاف ایک مجرمانہ کیس درج کروایا ہے جس سے جرمنی میں پریس کی آزادی کے تعلق سے بحث چھڑ گئی ہے۔

جرمنی کے حکام بھی اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ طنز نگار کہیں دوسرے ممالک کے رہنماؤں کی توہین کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔

بوہیمر مین جرمنی کے معروف طنز نگار ہیں جنھوں نے 31 مارچ کو اپنے ایک خاص پروگرام میں ایک فحش نظم پڑھی تھی۔ اس نظم کے مواد سے سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آزادی اظہار سے متعلق انھوں نے جرمنی کے قانون کی پاسداری نہیں کی ہے۔

جرمنی کے کرمنل کوڈ کی دفع 103 کے تحت بیرونی ممالک کے نمائندوں کی توہین ممنوع قرار پاتی ہے۔

اس نظم میں بکری اور بھیڑ کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ہی ترکی میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کا بھی ذکر ہے۔

اس سے قبل بھی جرمنی میں ٹی وی پروگرام کے ایک میزبان نے بھی ترکی کے صدر کا مذاف اڑایا تھا جس پر ترکی کے حکومت نے انقرہ میں جرمن سفارت کار کو طلب کرکے احتجاج کیا تھا۔

اس واقعے کو تو پریس کی آزادی کہہ کر ٹال دیا گیا تھا لیکن اس طنز نگار کے معاملے میں جرمنی کی چانسلر اینگلا میرکل نے مداخلت کی ہے۔

انھوں نے ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کو فون کر کے بتایا ہے کہ بوہیمر مین کی نظم دانستہ طور پر انتہائی توہین آمیز ہے۔ اس نظم کو زیڈ ڈی ایف نامی اس ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا گیا ہے جس کے لیے اسے پڑھا گیا تھا۔

خود بہت سے ناظرین اور سامعین نے بھی اس نظم کو نشر کرنے پر اعتراض کیا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close