دنیا

پناہ گزینوں سے متعلق معاہدے کے فروغ کے لیے میرکل ترکی میں

جرمن چانسلر انگیلا میرکل آج یورپی یونین کے اعلی حکام کے ہمراہ ترکی میں قائم شامی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ کا دورہ کریں گی۔

جرمن چانسلر کے اس دورے کا مقصد شامی سرحد سے ملحقہ علاقے غازیان ٹیپ میں پناہ گزینوں کی صورتحال سے آگاہ ہونا ہے۔بظاہر وہ یہ دیکھنے جا رہی ہیں کہ وہاں پناہ گزین کس حال میں رہ رہے ہیں لیکن

وہ پناہ گزینوں کے بحران کے حوالے سے یورپی یونین اور ترکی کے درمیان ہونے والے معاہدے کو بھی فروغ دیں گے۔

اقوامِ متحدہ میں اس معاہدے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے سوال اٹھائے گئے ہیں۔ جبکہ انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے محفوظ جگہ نہیں ہے۔

مارچ میں ترکی نے ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے مطابق ترکی یونان پہنچنے والے پانہ گزینوں کو واپس بلا لی گا جس کے بدلے اسے یورپی یونین کی امداد ملے گی اور اس کے شہریوں کے لیے ویزے کی پابندی ختم کی جائے گی۔

اس دورے میں امکان ہے کہ انگیلا میرکل ترکی وزیرِ اعظم سے ویزا فری سفر سے متعلق بات چیت کریں۔

ترک وزیرِ اعظم نے خبردار کیا تھا کہ اگر ویزے کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہ دکھائی گئی تو وہ معاہدہ ختم کر دیں گے۔

انگیلا میرکل کو پناہ گزینوں کے حوالے سے پالیسیز پر جرمنی میں کافی مخالفت کا سامنا ہے تاہم انھوں نے ترکی کے ساتھ معاہدہ کا دفاع کیا ہے۔

ان کے اس دورے سے جرمنی میں ایک کامیڈین کی سزا کے حوالے سے بھی دباؤ میں اضافہ ہوگا جس پر ترک صدر رجب طیب ادوغان کی توہین کا الزام ہے۔

گو کہ پناہ گزینوں سے متعلق ترکی اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والا معاہدہ نافذ العمل ہونے کے باوجود بھی سینکڑوں پناہ گزین سمندری راستے سے یونان پہنچے ہیں۔ معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے ایسے تمام پناہ گزينوں کو ترکی واپس بھیج دیا جائے گا جو پناہ کے لیے درخواست نہیں دیتے یا پھر ان کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے۔

ترکی اور یورپی یونین میں ہونے والے معاہدے کا ایک اہم مقصد پناہ گزینوں کی اتنا بڑی تعداد کو یونان پہنچنے سے روکنا بھی ہے۔ لیکن اس معاہدے پر صحیح طریقے سے عمل کیسے ہوگا اس سے متعلق بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

ادھر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت یونان میں 46 ہزار سے زائد پناہ گزین اور تارکین وطن انتہائی ابتر حالات میں گھرے ہوئے ہیں۔ مقدونیہ کی جانب سے سرحد بند کرنے کے بعد محصور ہوجانے والے پناہ گزینوں کی زیادہ تر تعداد عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close