دنیا

مظلوم پروفیسرکی بیٹی کاانکشاف ’میرے والد ملحد نہیں تھے‘

پروفیسر رضاالکریم صدیق بنگلہ دیش کی ان متعدد سیکیولر شخصیات میں شامل ہیں جنھیں حالیہ برسوں میں ہلاک کیا گیا ہے۔ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس قتل میں اس کا ہاتھ ہے۔

ایک بیان میں شدت پسند تنظیم نے پروفیسر صدیق پر الزام لگایا تھا کہ وہ ’لادینیت کا مطالبہ‘کر رہے تھے۔تاہم ان کی صاحبزادی رضوانہ حسین نے

بتایا کہ ان کے والد خدا پر یقین رکھتے تھے اور انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ انھیں کیوں نشانہ بنایا گیا۔

انھوں نے کہا: ’تفتیش کار چھان بین کر رہے ہیں، اور ہمیں نتائج کا انتظار ہے۔ ہمیں اب بھی معلوم نہیں ہے کہ کیا وجہ تھی۔ کوئی غلط فہمی یا پھر کچھ اور۔ یہ میرے لیے اور میرے خاندان کے لیے سوالیہ نشان ہے۔‘

58 سالہ پروفیسر صدیق راج شاہی یونیورسٹی میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ ان پر اس وقت خنجروں سے حملہ کیا گیا جب وہ یونیورسٹی جا رہے تھے۔

ان کے خاندان نے کہا ہے کہ انھوں نے موسیقی سکھانے کا سکول قائم کیا تھا اور ایک ادبی رسالہ نکالا تھا۔

پولیس کا خیال ہے کہ انھیں شدت پسندوں نے نشانہ بنایا ہے کیونکہ وہ ثقافتی سرگرمیوں سے وابستہ تھے۔ انھوں نے ایک شدت پسند طالبِ علم کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے رکھا ہے۔

 

ڈھاکہ میں نامہ نگار اکبر حسین کہتے ہیں کہ اسلامی شدت پسند تنظیمیں ثقافتی سرگرمیوں میں فعال لوگوں کو پسند نہیں کرتیں۔

بنگلہ دیشی حکام نے دولتِ اسلامیہ کے دعوے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں دولتِ اسلامیہ کا وجود نہیں ہے۔

صدیق چوتھے پروفیسر ہیں جنھیں حالیہ برسوں میں مشتبہ اسلامی شدت پسندوں نے قتل کیا ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ سال چار سیکیولر بلاگر بھی قتل کیے جا چکے ہیں۔

جن چار بلاگروں کو گذشتہ سال قتل کیا گیا ان کے نام ان 84 افراد کی فہرست میں شامل تھے جو خدا کے منکر تھے اور فہرست کو جے بی ایم نے سنہ 2013 میں جاری کیا تھا۔

اس کے علاوہ ملک میں شیعہ، صوفی، احمدی اور مسیحی اور ہندو اقلیتوں پر بھی حملے ہوئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close