دنیا

یمن کی جنگ سعودی عرب یا ایران کے مفاد میں نہیں ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے یمن میں جنگ کے خاتمے کی امید ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ سعودی عرب پر دباؤ ڈالے گا کہ یمن کے محاصرے کے باعث پیدا ہونے والے بحران پر قابو پایا جا سکے گا۔ امریکی ٹی وی چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گوتریز نے کہا ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ بیوقوفانہ جنگ ہے۔ میرے خیال میں یہ جنگ سعودی عرب اور امارات کے مفادات کے خلاف ہے اور یمن کے لوگوں کے بھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ جہاں تک ایران کا تعلق ہے ’یمن کی جنگ ایران کے فائدے میں بھی نہیں ہے کیونکہ یمن ایران سے بہت دور ہے جس کے ذریعے ایران خطے میں اثر و رسوخ چاہتا ہے‘۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ایران کے لیے یمن کی حکمت عملی اتنی مہنگی نہیں پڑ رہی جتنی سعودی عرب اور امارات کے لیے ہے تو ان کا کہنا تھا ’یہ اور وجہ ہے کہ یہ جنگ بند ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی دباؤ کے بعد سعودی عرب نے یمن کے محاصرے میں کمی کی ہے جس کے باعث امداد یمن پہنچ سکی ہے اور وہاں پر حالات بہتر ہوئے ہیں۔ ’مجھے امید ہے کہ صدر ٹرمپ نے سعودی عرب پر شدید دباؤ ڈالا ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ امداد یمن کے لوگوں تک پہنچ سکے، حالیہ دنوں میں کافی امداد یمن پہنچی ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں یمن میں جنگ سے یمنی عوام کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ساتھ ساتھ سعودی عرب اور امارت کو بھی نقصان ہو رہا ہے، لہذا یہ سب کے لیے بہتر ہے کہ جنگ روک دی جائے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق عرب دنیا کے سب سے غریب ملک میں 70 لاکھ افراد کو قحط کا سامنا ہے جبکہ یہاں خشک سالی نہیں ہے۔ یمن کو جس صورتحال کا سامنا ہے وہ کوئی قدرتی عمل نہیں بلکہ سیاسی ناکامی ہے۔ اسے سیاسی قحط کا سامنا ہے۔ جنگ سے قبل بھی یمن میں 90 فیصد خوراک بہرحال درآمد کی جاتی تھی۔ کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار وہاں کی بندرگاہوں، سڑکوں کے جال اور فضائی پابندیوں سے آزاد فضا پر ہوتا ہے۔ یمن میں حوثیوں کے خلاف اتحاد کی سربراہی کرنے والا سعودی عرب کسی بھی وقت بندرگاہیں بند کر سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ خوراک اور امداد کی فراہمی میں مشکلات، وہ خوراک اور امداد جس پر تقریباً دو کروڑ دس لاکھ افراد کا انحصار ہے۔ سعودی عرب نے ایسا ہی چار نومبر کو کیا جب حوثیوں نے سرحد پار سے ریاض کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر راکٹ حملہ کیا تھا۔ اب امدادی اداروں کو خدشہ ہے کہ تمام بندرگاہوں کو جب تک جلد ہی دوبارہ نہیں کھولا جاتا، گوداموں میں ذخیرہ کیا گیا سامان اگلے چند ماہ میں ختم ہوسکتا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close