دنیا

محمد علی نے آخری وقت انتہائی مشکل سے گزارا

سابق ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن محمد علی کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انھوں نے مرنے سے قبل ’آخری سال میں انتہائی سخت وقت گزارا۔‘

تین مرتبہ کے عالمی چیمیپیئن محمد علی کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ وہ 32 سال تک پارکنسنز کی بیماری میں مبتلا رہے اور ان کی موت نامعلوم قدرتی وجوہات سے ہونے والے سیپٹک شاک سے74 سال کی عمر میں ہوا۔

ابراہم لیبرمین جو کہ علی کے آخری لمحات میں ان کے پاس تھے کا کہنا ہے کہ ’علی کے آخری ہفتہ خاص طور پر ان پر بہت سخت گزرا۔

اس سے یہ ظاہر ہوا کہ خدا انھیں چاہتا تھا اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑا۔‘

 

’سب کو محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ برا ہونے والا ہے لیکن آپ امید کرتے ہیں کہ آپ اسے شکست دے دیں گے اور محمد علی وہ تھے جنھوں نے ہمیشہ مشکل چیزوں کا سامنا کیا۔ وہ ایک عام شخص نہیں تھے۔‘

’وہ اپنے عقائد کے لیے کھڑے ہوئے اور جو انھوں نے سوچا وہ صحیح تھا۔ انھوں عاجز اور بڑی سے بڑی شخصیت کے ساتھ یکساں برتاؤ رکھا جو کہ ٹھیک تھا۔‘

ابراہم لیبرمین نے مزید کہا کہ ’آپ سوچ بھی نہیں سکتے کے وہ رنگ کے اندر جیسے تھے اس کے مقابلے میں وہ رنگ سے باہر بہت اچھے تھے۔میں نے ایک بہترین دوست کھو دیا۔

ایریزونا میں محمد علی پارکنسن سینٹر کے ڈائریکٹر ابراہم لیبرمین نے اس خیال کو کہ محمد علی کی بیماری کی وجہ صرف اور صرف باکسنگتھی کو مسترد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ اس سے مدد ملی لیکن میرے خیال میں آہستہ آہستہ کئی سالوں میں یہ بڑھ گئی۔‘

ان کے مطابق: ’وہ لوگ جو ڈیمنیشیا پگلسٹیکا میں مبتلا ہوتے ہیں عموماً تین سے چار سال میں مر جاتے ہیں۔ محمد علی کو پارکنسن تھا اور وہ 30 سال زندہ رہے۔‘

’یہ ان کے جسم کے ایک حصے سے شروع ہوا، ایم آر آئی میں ان کا دماغ قدرے بہتر دکھائی دے رہا تھا۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کے اس میں باکسنگ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ان میں باقاعدہ پارکنسن کے جراثیم موجود تھے۔‘

محمد علی کے ڈاکٹر کو ایک پرانا واقعہ یاد آگیا جب محمد علی نرسنگ ہوم میں آئے اور ایک بزرگ شخص نے انھیں غلطی سے ایک اور عظیم باکسر جو لوئس سجمھ لیا تھا۔

’محمد علی نے اس پر کہا کہ اگر اس بزرگ شخص کو اس بات سے خوشی ملتی ہے کہ وہ لوئس سے ملے تو پھر میں جو لوئس ہوں۔

ڈاکٹر ابراہم نے کہا کہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ’محمد علی ایک عظیم شخص تھے لیکن مہربان تھے۔ جن میں لوگوں کے لیے بہت رحم کے احساسات موجود تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ علی کی بیماری کے دوران ان کے خاندان والوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

ابراہم کا کہنا تھا: ’ان کی بیماری بڑھ رہی تھی لیکن ان کے خاندان والے ان کے ساتھ تھے جنھوں نے انھیں اسی معیار کی زندگی دی جیسی کے آپ گزار رہے ہیں۔‘

سابق باکسر جو بگنر جن کا محمد علی کے ساتھ دو بار مقابلہ ہوا بھی اسی ریڈیو پروگرام میں مہمان تھے۔ 66 سالہ سابق باکسر نے آسٹریلیا میں اپنے گھر سے بات کرتے ہوئے کہا: ’محمد علی اور میں باکسنگ کی دنیا میں قریب ترین دوستوں میں سے ایک تھے۔‘

’محمد علی الگ تھے، وہ صرف عظیم، عظیم باکسر اور ایتھلیٹ ہی نہیں تھے بلکہ ایک ذہین انسان تھے اور الفاظ کے میدان میں کوئی بھی انھیں مات نہیں دے سکتا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close