دنیا

82 سالہ پروفیسر کی قوت مدافعت 20 سالہ جوان جیسی، وجہ کیا آپ بھی جان کر حیران ہوجائیں

لندن: کنگز کالج لندن کے 82 سالہ پروفیسر نورمن لازارس کی قوتِ مدافعت (امیونٹی) کسی 20 سالہ نوجوان جیسی مضبوط ہے اور بیماریوں کے خلاف زبردست جنگ کی صلاحیت رکھنے والی ہے جبکہ ایسا عمومی طور پر عمر رسیدہ افراد میں نہیں دیکھا جاتا۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ضعیف العمری میں کی جانے والی ورزش اور کسرت، ڈھلتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ تیزی سے کم ہوتی قوت مدافعت کو سنبھال کر دوبارہ مضبوط بنا دیتی ہے۔ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ انفیکشن اور بیماری پھیلانے والے جراثیم کے خلاف قوت مدافعت کم ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ معمولی نزلہ اور زکام کے بھی سینے اور پھیپھڑوں کے جان لیوا انفیکشن میں تبدیل ہوجانے کے امکانات قوی ہوتے جاتے ہیں۔ اکثر ضعیف العمر افراد میں اموات کی بڑی وجہ بھی قوت مدافعت میں کمی ہوتی ہے تاہم نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ضعیف العمری میں کی جانے والی ورزش سے قوت مدافعت کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔پروفیسر نورمن اس تحقیق کا مرکز تھے، جو ایک سائیکلسٹ بھی ہیں اور روزانہ کئی میل دُور تک سائیکل چلاتے ہیں۔ تحقیق کار سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ورزش ایک ایسی دوا ہے جسے ہر اُس شخص کو روزانہ کی بنیاد پر لینا چاہیے جو صحت مند رہنا چاہتا ہے۔تحقیق کاروں کے مطابق باقاعدہ سے کی گئی ’کسرت‘ جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے علاوہ ذہن، پٹھوں اور ہڈیوں کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے۔ یہ تحقیق جریدے ’ایجنگ سیل‘ میں شائع ہوئی، جس کے سربراہ ’انسٹی ٹیوٹ آف انفلیمیشن اینڈ ایجنگ‘ کے پروفیسر جینیٹ لارڈ نے اپنے تحقیقی مقالے میں کہا کہ بالعموم 20 سال کی عمر کے بعد سے قوت مدافعت میں سالانہ 2 سے 3 فیصد تک کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ضعیف العمر افراد میں انفیکشن، ہڈیوں کے بھربھرے پن اور کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تاہم باقاعدہ ورزش کرنے والے عمر رسیدہ افراد کی قوت مدافعت جوان افراد کے برابر ہوتی ہے جس کا پتا ان کی تحقیقی ٹیم نے خون میں موجود ’’ٹی سیلز‘‘ کا تجزیہ کرکے چلایا۔واضح رہے کہ ’’ٹی سیلز‘‘ کو جسمانی دفاعی نظام کی ’’پہلی صف‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو قدرتی قوت مدافعت کو جراثیم وغیرہ کے خلاف جنگ کرنے کےلیے تیار کرتے ہیں۔ ٹی سیلز گردن سے ذرا نیچے، سینے کے بالائی حصے میں اندر کی طرف موجود ’’تھائیمس گلینڈ‘‘ میں بنتے ہیں۔ یہ گلینڈ عمر کے ساتھ ساتھ سکڑتا جاتا ہے تاہم باقاعدہ ورزش اس گلینڈ کو سکڑنے سے بچاتی ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close