دنیا

برنی سینڈرز: مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

ہلیری کلنٹن اور برنی سینڈرز کے درمیان ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی کی دوڑ شروع ہوئی تو شروع شروع میں سیاسی پنڈتوں نے برنی سینڈرز کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ انھیں ’آؤٹ سائیڈر‘ کہا گیا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان کے خیالات اتنے کٹر ہیں کہ وہ زیادہ دور نہیں جا سکیں گے۔

کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ وہ مہم کے اس مرحلے تک پہنچ جائیں گے، شاید خود برنی سینڈرز کو بھی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود کلنٹن جیسی منجھی ہوئی اور پارٹی کے اندر دور تک جڑیں رکھنے والی امیدوار کو 22 ریاستوں میں شکست سے دوچار کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

ہلیری کلنٹن نے آٹھ برس خاتونِ اول کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں گزارے، وہ وہ ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے آٹھ برس تک سینیٹر رہنے کے ساتھ ساتھ براک اوباما کے دور میں وزیرِ خارجہ کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔

دوسری طرف ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدواری کے متنمی برنی سینڈرز ڈیموکریٹ تک نہیں ہیں۔ وہ صرف اس صدارتی نامزدگی کی مہم کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی میں شامل ہوئے تھے ورنہ اس سے پہلے وہ 30 برسوں تک ورمونٹ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے سینیٹ کا حصہ رہے ہیں۔

ظاہر ہے کہ ایک طرف تو سینڈرز کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی بالکل نئی تھی اور وہ خود ڈیموکریٹ پارٹی کے کرتا دھرتاؤں کے لیے اجنبی تھے۔

اس صورتِ حال میں یہ بات مزید غیرمعمولی ہو جاتی ہے کہ ان کے نامزدگی کے طویل سفر نے اس قدر طول کھینچا۔ ہم نیچے پانچ ایسی وجوہات بیان کر رہے ہیں جنھوں نے برنی سینڈرز کی مہم کے لیے مہمیز کا کام کیا۔

نظام سے برہمی

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی موجودہ نظام سے سخت نالاں ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد کا خیال ہے کہ تبدیلی چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل کر نہیں بلکہ لمبی چھلانگ لگانے ہی سے آ سکتی ہے۔ ہلیری کلنٹن چونکہ اسی نظام کی پیداوار اور اس کی تقویت کی ذمہ دار ہیں، اس لیے برنی سینڈرز کے حامیوں کی نظر میں ان سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ حقیقی تبدیلی لا سکتی ہیں۔

تقریباً یہی معاملہ سیاسی باڑ کی دوسری جانب رپبلکن پارٹی میں بھی پیش آیا جب ڈونلڈ ٹرمپ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ نمائندوں کو پچھاڑ کر صدارتی امیدوار بننے میں تقریبا کامیاب ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سینڈرز کو ڈیموکریٹ پارٹی کا ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہا گیا ہے۔

مفت تعلیم

سینڈرز خود تو 75 برس کے ہو چکے ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر ان کے حامیوں کی بڑی تعداد ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جو نومبر میں پہلی بار ووٹ ڈالے گی۔

میں نے شکاگو کے ایک کالج کے پہلے سال کی پاکستانی نژاد امریکی طالبہ امل منال سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا: ’بات بڑی سیدھی ہے، وہ ہماری ٹیوشن فیس ختم کر دیں گے، اس لیے ہم کسی اور کو ووٹ کیوں دیں؟‘

سینڈرز کی انتخابی مہم کا بنیادی پتھر یہ تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم مفت کر دیں گے۔ موجودہ حالات میں جب کہ ہر امریکی طالب علم اوسطاً 24 ہزار سے زائد قرض تلے دبا ہوا ہے، نوجوان ان کی طرف یوں کھنچے چلے آئے جیسے پروانے شمع کی طرف آتے ہیں۔

رابن ہڈ

برنی سینڈرز کے نظریات انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر انھیں انھیں سیاسی رابن ہڈ کہا گیا جو امیروں سے رقم لوٹ کر انھیں اصل حق داروں یعنی غریب عوام کے حوالے کر دے گا۔ ان کے ایسے ہی چند معاشی اقدامات میں کم از کم تنخواہ کو موجودہ سوا سات ڈالر سے بڑھا کر 15 ڈالر کرنا، وال سٹریٹ کو لگام دینا، بڑے بینکوں کی اجارہ داری ختم کرنا، اور سب کے لیے صحت کی سہولیات کی فراہمی شامل ہیں۔

سیاسی چابک دستی

سینڈرز نے کلنٹن سے مقابلے کے دوران اپنے سیاسی پتے بڑی چابکدستی سے کھیلے۔ انھوں نے پرائمری انتخابات کے دوران کلنٹن کے اقتدار کے ایوان کے تجربے کی بظاہر خوبیوں کو الٹ کر ان کی خامیاں بنا دیا۔ انھوں نے بہت سے لوگوں کو یہ باور کروا دیا کہ جو شخص کئی عشروں سے خود ’بےلگام‘ وال سٹریٹ اور ’بدعنوان‘ اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے، وہ کیسے سٹیٹس کو میں تبدیلی لا سکتا ہے؟

مستقل مزاجی

سینڈرز کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہیں۔ انھوں نے حالیہ مہم کے دوران 2003 کی تباہ کن امریکی جنگ کو بہت بڑا سیاسی ایشو بنا دیا۔ یہ بات ان کے حق میں گئی کہ وہ دونوں جماعتوں کی جانب سے واحد صدارتی امیدوار تھے جنھوں نے اس جنگ کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ انھوں نے اس وقت سینیٹ میں سوال کرتے ہوئے نکتہ اٹھایا تھا کہ ’سوال یہ نہیں ہے کہ ہمیں صدام حسین پسند ہے یا نہیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا عراق پر یک طرفہ حملے سے زیادہ فائدہ ہو گا یا نقصان؟‘

اب یہ بات تقریباً یقینی ہو چکی ہے کہ برنی سینڈرز کی صدارتی مہم کا سورج غروب ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے دکھا دیا ہے کہ وہ سوشلسٹ خیالات جو پہلے انتہائی کٹر سمجھے جاتے تھے وہ بھی موضوعِ بحث آ سکتے ہیں۔

برنی سینڈرز کو چاہے اس سے کچھ حاصل نہ ہوا ہو، لیکن امریکی سیاست ضرور مضبوط ہوئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close