دنیا

برطانیہ اب جانے میں دیر نہ کرے

یورپی رہنماؤں نے برطانیہ سے کہا ہے کہ وہ جتنا جلدی ہو سکے یورپی یونین سے نکل جائے کیونکہ اس میں تاخیر غیر یقینی کو ہوا دے گی۔

جبکہ برطانیہ کے عوام کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد یورپی رہنماؤں نے تنظیم میں یکجہتی اور استحکام کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ باقی ماندہ 27 ارکان متحد رہنے کے لیے پر عزم ہیں۔

تاہم اٹلی کے وزیرِ اعظم میٹیو رینزی سمیت کئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو بدلنا چاہیے اور مزید’ انسان دوست اور منصفانہ ہونا چاہیے۔‘

52 فیصد برطانوی عوام نے 43 سال کے بعد یورپی یونین کو چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیے ہیں۔ جبکہ 48 فیصد اس کے ساتھ رہنے کے خواہاں تھے۔اس فیصلے کے بعد برطانوی وزیرِ اعظم نے استعفے کا اعلان کیا ہے۔

عالمی بازار حصص میں مندی دیکھنے میں آئی اور پاؤنڈ کی قیمت میں بھی کمی دیکھی گئی۔

فرانس کے صدر فرانسوا اولاند سمیت بعض یورپی رہنماؤں نے اپنے اپنے ملک میں بحران کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔

یورپین پارلیمنٹ کے صدر مارٹن سکلز، یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک، یورپین کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ جنکر اور ڈنمارک کے وزیرِ اعظم مارک رُوتے نے بھی ہنگامی اجلاس منعقد کیے۔

آسٹریا کے وزیرِ خارجہ سمیت کئی رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا کہ تنظیم سے برطانیہ کے انخلا سے پوری تنظیم کو خطرہ ہوگا۔

یورپی یونین کی مخالف تنظیموں نے فرانس، نیدر لینڈ اور اٹلی میں بھی ریفرینڈم کا مطالبہ کر دیا۔

برطانیہ میں انڈیپینڈنٹ پارٹی کے رہنما نائجل فیریج کا کہنا ہے کہ ’ یورپی یونین مر رہی ہے۔‘

تاہم ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ ’یہ وقت دیوانوں جیسے ردِعمل دینے کا نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ باقی بچے 27 ممالک کو متحد رکھنے کے لیے پر عزم ہیں۔

برطانوی ریفرینڈم کے نتائج پر یورپی یونین کے رہنماؤں نے صدمے اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی کے وزیرِ خارجہ فرینک والٹر کا کہنا تھا جمعے کا دن ’یورپ کے لیے اور برطانیہ کے لیے انتہائی دکھ بھرا دن ہے۔‘ ان کے پولش ہم منصب کا کہا تھا کہ ’یہ یورپ اور پولینڈ دونوں کے لیے ایک بری خبر ہے۔‘

پرتگال کے صدر مارکو ریبیلو ڈیسوزا کا کہنا تھا کہ ’یورپی یونین مضبوط رہے گی اور ایک مشترکہ شناخت کی جو قدر بنائی گئی ہے اس کا دفاع کرے گی۔‘

ڈنمارک کے وزیرِ اعظم لارس لوئکے راسموسین نے اپنے ملک پر زور دیا کہ وہ یورپی یونین سے جڑا رہے۔

چیک ری پبلک کے وزیرِ اعظم بوہسلیوو سبوٹکا کا کہنا ’ انتہائی مایوسی کے باوجود ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کیونکہ یہ اختتام نہیں ہے نہ ہی دنیا کا اور نہ ہی یورپی یونین کا۔‘

انھوں نے کئی دوسروں کے مطالبے کو دہرایا کہ ’یورپ کو زیادہ عملی اور بیورو کریسی کو کم کرتے ہوے لچک دار ہونا پڑے گا۔‘

یورپی پارلیمان میں جرمنی کے رکن اور انگیلا میرکل کے پارٹی سے تعلق رکھنے والے مینفریڈ ویبر نے برطانیہ کے لیے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ ’برطانیہ کے لیے کوئی خصوصی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ چھوڑ دیا تو مطلب چھوڑ دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close