دنیا

’میرے ساتھ 24 لڑکیوں کو روز۔۔۔‘ 10 سالہ بچی بھاگتی ہوئی تھانے پہنچ گئی اور ایسا شرمناک انکشاف کردیا کہ پولیس سٹیشن میں بھی کھلبلی مچ گئی کیونکہ۔۔۔

نئی دلی: بھارتی شہر مظفر پور کے ایک شیلٹر ہوم میں بے سہارا لڑکیوں کو جنسی دھندے میں استعمال کرنے کا انکشاف سامنے آیا تو پورے بھارت میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ابھی یہ ہنگامہ ہی ختم نہیں ہوا تھا کہ ریاست اتر پردیش کے شہر دیوریا میں بھی ایک ایسے ہی شیلٹر ہوم کا لرزہ خیز انکشاف سامنے آ گیا ہے۔یہ شیلٹر ہوم، جو دراصل جسم فروشی کا اڈہ بن چکا تھا، گرجیا تریپاٹھی نامی ایک خاتون چلا رہی تھی۔ پولیس نے گرجیا ، اس کے خاوند موہن تریپاٹھی، اور ان کی بیٹی کو گرفتار کیا ہے اور 24لڑکیوں کو بازیاب کروایا ہے، جبکہ 18لڑکیاں اب بھی لاپتہ ہیں۔ اس شیلٹر ہوم کی آڑ میں جاری بھیانک دھندے کا پولیس کو اس وقت علم ہوا جب ایک 10سالہ لڑکی شیلٹر ہوم سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی اور سیدھی پولیس سٹیشن جا پہنچی۔ اس بچی نے پولیس کو بتایا کہ رات کے وقت شیلٹر ہوم میں اجنبی مرد آتے ہیں اور گرجیا اور موہن سے کچھ بات چیت کے بعد وہاں سے لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ان لڑکیوں کو وہ اگلی صبح واپس چھوڑ کر جاتے ہیں۔ بچی نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ شیلٹر ہوم میں رہنے والی لڑکیوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا تھا اور ان کی مار پیٹ بھی کی جاتی تھی۔پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ شیلٹر ہوم میں رکھی گئی بے سہارا لڑکیوں کو جنسی دھندے کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ شیلٹر ہوم میں کل 42لڑکیاں رجسٹرڈ ہیں مگر ان میں سے 18 لاپتہ ہیں۔ بازیاب کروائی گئی لڑکیوں میں سے زیادہ تر کی عمر 15اور 18سال کے درمیان ہے۔ ان کم عمر لڑکیوں کو رات کے وقت آنے والے گاہکوں کے حوالے کیا جاتا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کا میڈیکل کروایا جا رہاہے جس کے بعد انہیں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیا جائے گا اور دفعہ 164کے تحت بیان ریکارڈ ہونے کے بعد گرفتار کیے گئے جوڑے کیخلاف قانونی کارروائی کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوجائے گا۔یاد رہے کہ اس سے پہلے مظفر پور شہر کے ایک شیلٹر ہوم سے 30لڑکیوں کو بازیاب کروایا گیا تھا۔ ان بے سہارا لڑکیوں کو بھی ایک عرصے سے جنسی دھندے کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ انہیں صرف بھارت ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے گاہکوں کے پاس بھی بھیجا جاتا تھا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close