Featuredدنیا

شام میں انتخابات تک اپنی افواج واپس نہیں بلائیں گے، ترک صدر

بیروت: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ شام میں انتخابات کے انعقاد تک ترکی وہاں سے اپنی افواج واپس نہیں بلائے گا۔ استنبول میں ایک عالمی فورم کی اختتامی تقریب کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے طیب اردوان نے کہا کہ جب شام کے عوام انتخابات کا انعقاد کریں گے تو ہم شام کو اس کے اصل مالکان کے سپرد کر کے اپنی افواج وہاں سے واپس بلا لیں گے۔

خیال رہے کہ ترکی نے اپنی سرحد کو داعش کے دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے اگست 2016 میں اپنی افواج وہاں بھیجی تھیں۔

رواں سال کے آغاز میں ترک افواج نے شام کے شمالی علاقے میں بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کیا تھا تاکہ ترکی کی جانب سے دہشت گرد تصور کیے جانے والے کرد ملیشیا کو اس علاقے سے باہر نکال کر ان کا قلع قمع کیا جا سکے۔

فورم کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یورپی یونین میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے فیصلہ عوام کی رائے سے ریفرنڈم کے ذریعے کرانا بہتر ہو گا۔

2005 میں ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت کا امیدوار بنایا گیا تھا اور اس وقت سے یورپ کی مستقل رکنیت کے حصول کے لیے ترکی کے 28 ممالک پر مبنی یورپی یونین سے مذاکرات جاری ہیں تاہم 13 سال گزرنے کے باوجود بھی انہیں رکنیت نہیں دی گئی۔

یورپی یونین کے اراکین کا ماننا ہے کہ ترکی میں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی کمی ہے لیکن دوسری جانب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک مسلمانوں سے عناد کی وجہ سے ترکی کو رکنیت نہیں دینا چاہتے۔

ترک صدر نے کہا کہ میں اپنی پارٹی کے اراکین اور دیگر ذمے داروں سے ریفرنڈم کے حوالے سے بات کروں گا اور اگر انہوں نے رضامندی ظاہر کی تو میں ریفرنڈم کے انعقاد کا فیصلہ کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ 2018 آ چکا ہے لیکن ہمیں ابھی تک انتظار کرایا جا رہا ہے اور اب ہم اپنے 8کروڑ عوام کے پاس جائیں گے اور دیکھیں گے وہ ریفرنڈم میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

اس موقع پر طیب اردوان نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی کونسل میں تمام براعظموں کے ممالک کی نمائندگی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں تمام سات براعظموں سے نمائندے شریک ہوں کیونکہ دنیا 5 سے کہیں زیادہ ہے۔

ترک صدر نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ڈھانچے اور صرف 5 اراکین کی موجودگی پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جو حالات تھے ان کو دیکھتے ہوئے سیکیورٹی کونسل کے 5 اراکین بنائے گئے تھے لیکن اب صورتحال بہت مختلف ہے لہٰذا اس ڈھانچے میں تبدیلی لائی جائے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close