Featuredدنیا

پاکستان نتائج دے اور اعتماد بحال کرے، امریکا

واشنگٹن: امریکا نے پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن، اسلام آباد سے نتائج اور اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات چاہتا ہے۔ ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نائب ترجمان رابرٹ پالاڈینو سے سوال کیا گیا کہ چند ہفتوں قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پیغامات میں پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا، جس کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بھی ٹوئٹر پر اس کا ردعمل دیا اور اچھی خاصی لفظی جنگ ہوئی لیکن اب امریکا، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے تو کیا امریکا کی طرف سے بیانات دینے کا یہ وقت مناسب تھا؟

جس کے جواب میں نائب ترجمان پالا ڈینو نے جواب دیا کہ سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ پاک امریکا تعلقات میں اعتماد کی بحالی کے لیے پاکستان کو نتائج دینے کی ضرورت ہے اور اسلام آباد کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے۔ بریفنگ کے دوران کرتارپور راہداری کے سنگ بنیاد رکھنے کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان اور بھارت کے شہریوں کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔

پاک-امریکا تعلقات میں تناؤ

واضح رہے کہ رواں برس یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان مخالف ٹوئیٹ کے بعد سے ہی دونوں ملکوں کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔

ٹرمپ نے اپنے پیغام میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران پاکستان کو 33 ملین ڈالر امداد دے کر حماقت کی جبکہ بدلے میں پاکستان نے ہمیں دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا’۔

بعدازاں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی پاکستان کی سیکیورٹی معاونت معطل کرنے کا اعلان کردیا جبکہ پاکستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ سنگین خلاف ورزی کرنے والے ممالک سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں بھی شامل کردیا گیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ اور دیگر افغان طالبان کے خلاف کارروائی تک معاونت معطل رہے گی۔

دوسری جانب رواں ماہ ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا’۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ‘ہم پاکستان کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر سے زیادہ دیتے تھے، ہم پاکستان کو سپورٹ کر رہے تھے اور القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن وہاں ملٹری اکیڈمی کے قریب آرام سے رہائش پزیر تھا۔پاکستان میں ہر کوئی اسامہ بن لادن کے بارے میں جانتا تھا لیکن انہوں نے ہمیں اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا’۔

امریکی صدر نے بعدازاں ٹوئٹر پر بھی اسی قسم کے بیانات داغے، جس پر پاکستانی قیادت کی جانب سے بھرپور ردعمل سامنے آیا۔

اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر کا ‘ریکارڈ درست’ کرتے ہوئے کہا کہ ‘نائن الیون حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کے غلط دعوے دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کو جانی و مالی نقصان کی صورت میں لگنے والے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے’۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ‘امریکی صدر کو تاریخی حقائق سے آگاہی کی ضرورت ہے، پاکستان نے امریکی جنگ میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے لیکن اب ہم وہی کریں گے جو ہمارے اور ہمارے لوگوں کے مفاد میں بہتر ہوگا’۔

پاکستان نے ہمیشہ امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، لیکن امریکا اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close