دنیا

برطانیہ سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روک دے

کمیٹی کی تجویز ہے کہ برطانیہ اس وقت تک سعودی عرب کو اسلحہ فروخت نہ کرے جب تک یمن میں خانہ جنگی کے دوران سعودی عرب کی جانب سے فوجی مداخلت کے دوران انسانی حقوق کی پامالی اور دیگر الزامات کی تفتیش کی جا رہی ہے

گذشتہ برس برطانوی حکومت نے سعودی عرب کو چار ارب ڈالر، جب کہ امریکہ نے چھ ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔ فرانس نے اسی دوران 18 ارب ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب کو بیچا۔

خیال رہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس تینوں نے آرمز ٹریڈ ٹریٹی معاہدے کی توثیق کر رکھی ہے جس کا مقصد اسلحے کی فروخت پر نظر رکھنا ہے، خاص طور پر شورش زدہ علاقوں اور ایسے ممالک کو فروخت کی جانچ پڑتال کرنا جن کے بارے میں شبہ ہو کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو بڑے پیمانے پر اسلحے کی فروخت سے یمن میں جاری تنازعے کو ہوا مل رہی ہے۔

کمیٹی کی جانب سے تیار کردہ مسودہ دیکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کر دے کیونکہ خدشہ ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو ہمسایہ ملک یمن میں کارروائی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

خیال رہے کہ برطانوی حکومت کو سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کے باعث مسلسل تنقید کا سامنا ہے تاہم منگل کے روز وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کے اقدام کا دفاع کیا اور کہا کہ اس فروخت کو جاری رکھا جائے گا۔

برطانوی حکومت کا موقف ہے انھیں سعودی حکام کی جانب سے ہتھیاروں کے غیر قانونی استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ دوسری جانب کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ یقین دہانی اس سلسلے میں ناکافی ہے۔

برطانوی پارلیمان کی یہ کمیٹی چار پارلیمانی کمیٹیوں پر مشتمل ہے جن میں تجارت، جدت اور ہنر کی کمیٹی، دفاعی امور کی کمیٹی، خارجہ امور کی کمیٹی اور بین الاقوامی ترقی کی کمیٹی شامل ہیں۔

رپورٹ کا مسودہ بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ کی ٹیم نے دیکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی اتحاد کی جانب سے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے شواہد کا وزن اب بہت زیادہ ہوچکا ہے، اب سعودی عرب کو مدد کی فراہمی جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔‘

کمیٹی کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے خریدے جانے والے ہتھیاروں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ مبینہ طور برطانوی اسلحے کے ذریعے یہ خلاف ورزی ناگزیر ہوگی۔

دوسری جانب برطانوی حکومت کا موقف ہے کہ وہ اسلحے کے لائسنسنگ کے لیے سخت گیر نظام موجود ہے اور اسے سعودی عرب نے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ سعودی عرب قانون کے اندر رہ کر کارروائی کر رہا ہے۔

خیال رہے کہ برطانوی حکومت پارلیمان کی کمیٹی کی تجاویز پر عملدرآمد کرنے کی پابند نہیں ہے۔

سعودی عرب یمن میں ایک سال سے زائد عرصے سے حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جس میں چھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

یمن سے متعلق اقوامِ متحدہ کی پالیسی کو بھی انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

دو ماہ قبل یمن میں بین الاقوامی امدادی اداروں کےلیے کام کرنے والوں کارکنوں نے اقوام متحدہ کی طرف سے بچوں اور عورتوں پر ظلم کرنے والوں کی فہرست میں سے یمن پر حملہ آور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا نام خارج کیے جانے پر شدید رنج اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے یمن کے لوگوں کے ساتھ صریحاً زیادتی قرار دیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close