دنیا

شامی فوج پر نادانستہ حملے کا افسوس ہے

شامی افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی اس نے روس کی بھی تنقید کی ہے جس نے اس حملے کے جواب میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔

اقوام متحدہ نے اسے ماسکو کی جانب سے کی جانے والی ’بازی گری‘ قرار دیا ہے۔

روس کے مطابق اس حملے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

امریکی اتحادی افواج کی سینٹرل کمانڈ تسلیم کیا ہے کہ انھوں نے ان ٹھکانوں کا دولت اسلامیہ کا ٹھکانہ سمجھ کر حملہ کیا جس پر وہ کئی دنوں سے نظر رکھ رہے تھے۔

لیکن ماسکو نے واشنگٹن پر نام نہاد جنگجو تنظیم دولت اسلامیہ کی امداد کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ اس سے امریکہ کے ساتھ ہونے والا امن معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔

دوسری جانب امریکہ کا کہنا ہے کہ جب انھیں شامی علاقے دیر الزور میں شامی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا تو اس کے طیاروں نے وہاں حملہ روک دیا اور انھوں نے یہ جانتے ہوئے پھر وہاں حملہ نہیں کیا۔

روس کا کہنا ہے کہ اس فضائی حملے کی وجہ سے شدت پسندت تنظیم دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو پیش قدمی کا موقع ملا۔

اس سے قبل روسی فوج کا کہنا تھا کہ شام میں جنگ بندی کے باوجود باغی گروپ کی جانب سے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ اس نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے یا پھر جنگ بندی کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرے۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ باغیوں جن میں سے بعض کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے کہ حملوں میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

جنرل وکٹر پوزنیخر نے کہا ہے کہ ’باغی گروپس نے جنگ بندی کی کسی ایک بھی پابندی کا احترام نہیں کیا۔‘

دوسری جانب شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ امریکی اتحادی فورسز نے حکومتی افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں درجنوں فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

شامی حکومت کے مطابق اس فضائی حملے میں کم از کم 60 فوجی مارے گئے ہیں جبکہ امدادی ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 80 ہے۔

اس سے قبل روس کے صدر ولادی میر پوتن نے شام میں امریکی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں باغی گروپ حالیہ جنگ بندی سے فائدہ اٹھا کر ازسرنو منظم ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ، جو کچھ گروپوں کی حمایت کر رہا ہے، ان کی فوجی صلاحیت کو برقرار رکھنے پر زیادہ توجہ دے رہا ہے بجائے اس کے کہ وہ اعتدال پسند عناصر کو شدت پسندوں سے الگ کرے جو پیر سے شروع ہونے والی جنگ بندی کا بنیادی مقصد ہے۔

مسٹر پوتن نے واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو منظر عام پر لائے۔

اس سے پہلے بھی امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہونے کے اشارے مل رہے تھے۔

روس نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے ’اعتدال پسند‘ باغی تنظیموں کو شدت پسند تنظیموں سے الگ نہ کیا تو وہ ان پر دوبارہ سے بمباری شروع کر سکتا ہے۔

اس کے جواب میں امریکہ نے حلب اور دوسرے محصور علاقوں تک امدادی سامان نہ پہنچنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اپنے دورہِ کرغستان کے دوران دیئے گئے اس بیان میں صدر پوتن نے کہا کہ روس جنگ بندی کے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے اور شام کی حکومت بھی جنگ بندی کی ’مکمل طور پر پیروی‘ کر رہی ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ حکومت کے مقابلے میں باغیوں کی فوجی صلاحیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ان کے مطابق ایک ’خطرناک راستہ‘ ہے۔

’جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ نہیں کہ دہشت گردوں کو صحت مند اپوزیشن سے الگ کیا جا رہا ہو بلکہ یہ ہے کہ دہشت گرد ازسرنو منظم ہو رہے ہیں۔‘

اس سے پہلے روس نے دھمکی دی تھی کہ وہ ’اعتدال پسند‘ باغی گروپوں پر ان کے شدت پسندوں سے الگ نہ ہونے کی صورت میں ہوائی حملے دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔

مسٹر پوتن نے کہا کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکہ جنگ بندی کے معاہدہ کی تفصیلات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو کیوں نہیں بتا رہا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک اجلاس جمعہ کو ہونا تھا لیکن آخری لمحات میں منسوخ کر دیا گیا۔

روسی صدر نے کہا کہ ان کا ملک امریکہ کی اجازت کے بغیر کچھ بھی منظر عام پر نہیں لائے گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادِ پر اتفاق رائے کے بارے میں پرامید ہیں۔

ترکی اور شام کی سرحد پر امدادی سامان سے لدے 20 ٹرک پیر سے محفوظ راستہ ملنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ تاہم اقوامِ متحدہ کو ابھی تک شامی حکومت کی جانب سے اجازت نامے نہیں ملے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close