دنیا

لیبیا میں اقتدار پر قبضے کی جنگ میں شدت

طرابلس: لیبیا میں دارالحکومت طرابلس پر قبضے کی جنگ شدت اختیار کر گئی اور عسکری گروپ ہفتر کی جانب سے حکومت کے خلاف شروع کی گئی جارحانہ کارروائیوں اور جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک 121 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہفتر کی فورسز اور اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومتی افواج کے درمیان جھڑپوں میں دونوں فریقین نے پیش قدمی کا دعویٰ کیا ہے لیکن حالیہ دنوں میں دونوں میں سے کسی کی بھی فورسز زیادہ آگے نہیں بڑھ سکیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 4 اپریل سے شروع ہونے والی ان جھڑپوں میں اب تک 121 افراد ہلاک اور 560 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں اور وہ طبی امداد کے لیے مزید عملہ اور ادویات بھیج رہے ہیں۔ سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں عالمی ادارہ صحت نے بتایا کہ اس کے عملے اور گاڑیوں پر حملے کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے کام میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جبکہ ہفتے کو طبی عملے کے 3 افراد کی ہلاکت کی تصدیق بھی گئی تھی۔

تیل کی دولت سے مالا مال ملک میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر عالمی قوتوں نے تشویش کا اظہار کیا جہاں 2011ء میں نیٹو کی حمایت یافتہ افواج کی جانب سے سابق آمر معمر قذافی کو ہٹائے جانے کے بعد سے ملک مستقل مشکلات کا شکار ہے، اس کے بعد سے مختلف قوتوں کی جانب سے ملک کے اقتدار پر قبضے کی جنگ بھی جاری ہے۔

ہفتر کی جانب سے یہ جارحیت ایک ایسے موقع پر کی گئی، جب ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے رواں ماہ ایک کانفرنس شروع ہونے والی تھی تاہم اب اقوام متحدہ نے اس کانفرنس کو منسوخ کر دیا۔ لیبیا کی نیشنل آرمی چلانے والے ہفتر ملک کے مشرق میں واقع اپنے مرکز سے تیزی سے دارالحکومت کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کے سربراہ فیاض السراج موجود ہیں۔

اتحادی حکومت کا کہنا تھا کہ افواج نے اتوار کو ہفتر کی فورسز کا جنگی طیارہ مار گرایا جو جنوبی طرابلس میں فضائی حملے کی تیاری کر رہا تھا۔ واضح رہے کہ ہفتر نے مصر کے صدر عبدالفتح ال سیسی سے ملاقات کر کے ان سے درخواست کی کہ وہ لیبیا میں امن و استحکام کے لیے ان کی کوششوں کا ساتھ دیں۔

رپورٹ کے مطابق سیسی نے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے جہاں ہفتر کو عرب ریاستوں اور روس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ جنوبی طرابلس میں جھڑپوں کے باعث لوگوں نے اپنے گھروں سے نقل مکانی شروع کر دی ہے، 13ہزار سے زائد افراد کو دوسرے مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ 900 سے زائد پناہ گاہوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں فریقین کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر فضائی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے پر شہری آبادی کو نشانہ بنانے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close