دنیا

ایک صدی بعد آئن اسٹائن کا خیال درست ثابت ہوگیا

سائنسدانوں نے رواں صدی کی اب تک کی سب سے بڑی دریافت کی ہے اور وہ ہے اسپیس ٹائم (زمان و مکاں) میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی۔

یہ وہ خیال ہے جو ایک صدی قبل یعنی 1915 میں معروف سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن نے پیش کیا تھا اور آج ایک سو سال بعد اس کی تصدیق ہوگئی ہے۔

اپنے نظریہ عمومی اضافیت میں البرٹ آئن اسٹائن نے پیشگوئی کی تھی کہ کائنات میں ہونے والے بڑے واقعات جیسے ستاروں کے ٹکراﺅ کے نتیجے میں کششِ ثقل کی لہریں پیدا ہوتی ہیں اور انتہائی دور تک توانائی کو منتقل کرتی ہیں۔

11 فروری 2016 کو خلاء میں کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانے کی کئی دہائیوں کی کوششوں کے بعد سائنسدانوں نے اس کی موجودگی کا اعلان کیا ہے۔

کشش ثقل کی یہ لہریں 750 ملین سے 1.86 ارب نوری برسوں کے فاصلے پر واقع ایک اور کہکشاں سے اس وقت آئیں جب اتنے ہی سال قبل 2 بلیک ہولز ایک دوسرے سے ٹکرا گئے جس سے اسپیس ٹائم ہل کر رہ گیا۔

اس سے پیدا ہونے والی لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہوئیں ستمبر 2015 میں کرہ ارض کے پاس سے گزریں، جنہیں سائنسدانوں نے دریافت کیا.

اس دریافت کا اعلان Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory (لیگو) نے کیا جس میں پندرہ ممالک کے 900 سائنسدان 2002 سے ان لہروں کی تلاش کا کام کررہے تھے۔

دریافت اور اعلان کے درمیان کے عرصے میں نتائج متعدد بار ٹیسٹ کیے گئے، اور ہر بار ایک ہی نتیجہ ملنے پر سائنسدانوں نے دریافت میں کامیابی کا اعلان کیا.

لیگو نے ان لہروں کے لیے ایک خصوصی آئینہ استعمال کیا جو لیزر لائٹ کی شعاع کو تقسیم کرتا، اور ہر شعاع کو 2 چار کلومیٹر لمبی ٹیوبز میں منتقل کرتا اور روشنی ہر سرنگ میں 400 بار آگے پیچھے ہوکر ڈیٹکٹر تک پہنچتی۔

اس طرح ہر شعاع کا سفر 1600 کلومیٹر کا راﺅنڈ ٹرپ بن جاتا ہے جس کے بعد یہ لائٹ اپنے ذریعے کے قریب اکھٹی ہوجاتی۔

عام حالات میں روشنی کی یہ لہریں اکھٹا ہونے پر ایک دوسرے کو مکمل طور پر کاٹ دیتی ہیں اور قریبی ڈیٹکٹر میں کسی حرکت کا سگنل نہیں ملتا۔

مگر کشش ثقل کی لہر پاس سے گزرنے پر ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ایسی صورت میں دو شعاعیں ایک ہی زاویے پر اکٹھی نہیں ہو پاتیں، اور ڈیٹکٹر سگنل کو پکڑ لیتا ہے۔

واشنگٹن اسٹیٹ اور لوزیانا میں واقع ان 2 ڈیٹکٹرز میں سگنل ملنے سے ہی اس بات کی تصدیق ہوتی کہ یہ کشش ثقل کی لہر خلاء سے آئی ہے جبکہ مقامی لہریں ایک ڈیٹکٹر پر ہی ظاہر ہوتیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close