دنیا

انڈین وزیر دفاع کا جوہری بم کا نیا فارمولہ

انڈیا نے 1999 میں متفقہ طور پر یہ اصول اختیار کیا تھا کہ انڈیا اپنے جوہری بم کسی ملک کے خلاف پہلے استمعال نہیں کرے گا۔روایتی متبادل کے موثر نہ ہونے کی صورت میں صرف جوابی حملے کے طور پر جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا اصول اختیار کیا گیا۔

منوہر پریکر کا کہنا ہے کہ اس اصول پر نظر ثانی کی جانی چاہیے کہ انڈیا کسی ملک کے خلاف جوہری ہتھیار پہلے نہیں استمعال کرے گا۔ پریکر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کے وزیر دفاع اکثر جوہری جنگ کا حوالہ دیا کرتے تھے ۔ ‘سرجیکل سٹرائک’ کے بعد پاکستان کی طرف سے یہ دھمکیاں آنی اب بند ہو گئی ہیں۔

انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان کے بیان پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور اسےانتہائی غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک قرار دیا ہے۔ تقریباً سبھی قومی اخبارات میں پریکر کے بیان کےخلاف اداریے لکھے گئے ہیں۔

وزیر دفاع نے اپنے بیان کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ وہ ان کے ذاتی خیالات ہیں لیکن بہت سے لوگ ان کے بیان کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اسے پریکر کے نظریاتی پس منطر میں سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بھارتی جنتا پارٹی کے 2014 کے انتخابی منشور میں جوہری ہتھیار پہلے نہ استعمال کرنے کے اصول پر نظرِ ثانی کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

اس پس منظر میں پریکر کے بیان پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس جوہری ہتھیاروں کےاستعمال سے متعلق 1999 کے واجپائی ڈاکٹرین سے متفق نہیں ہیں اور وہ اس یکطرفہ قرارداد کو کالعدم قرار دینا چاہتے ہیں۔

انڈیا جوہری ہتھیاروں اور جوہری عدم توسیع کے معاملے میں بین القوامی سطح پر ایک ذمہ دار ملک تصور کیا جاتا رہا ہے۔ کسی ملک کے خلاف جوہری بم پہلے نہ استعمال کرنے کا اصول بھی انڈیا کی اسی ذمہ دارانہ اور اخلافی پوزیشن کا غماز ہے۔

دنیا یہ سمجھ چکی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی پوری دنیا کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔

ماضی میں کئی گھمسان جنگیں ہو چکی ہیں لیکن کبھی کسی مرحلے پر بھی جوہری ہتھیاروں کا استعمال کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آیا۔

انڈیا دنیا کےان چند ملکوں میں شامل ہے جنھوں نے خاصی تعداد میں جوہری بم بنا رکھے ہیں۔ نو فرسٹ یوز کا ڈاکٹرین اسی پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے اختیار کیاگیا تھا کہ انڈیا دنیا کو یہ پیغام دے سکے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ضرور ہیں لیکن ان کا استعمال وہ جنگ کرنے کے لیے نہیں صرف جنگ روکنے کے لیے کرے گا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اقوام عالم کو یہ بتا سکے کہ وہ جنگ میں نہیں امن میں یقین رکھتا ہے۔

یہ حقیقت سبھی کو پتہ ہے کہ جب کسی ملک کی بقا خطرے میں ہو تو اپنی سالمیت اور بقا کے لیے وہ اپنی ہر وہ طاقت استعمال کرے گا جو اس کے پاس ہوگی۔ اس کے لیے کسی اصول کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی کہیں بیان دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔

پریکر نے یہ بیان ایک ایسےوقت میں دیا ہے جب پاکستان سےانڈیا کے تعلقات کشیدہ ہیں اور سرحد پر گولہ باری ہو رہی ہے۔

ڈیڑھ مہینے پہلے جب انڈیا نے پاکستان کی سرحد کے اندر سرجیکل سٹرائک کرنے کا دعوی کیا تھا تو اس وقت پریکر نے کہا تھا کہ حکومت کو اس جرات مندانہ قدم کے لیے ترغیب ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس سے ملی تھی۔

آئندہ مہینوں میں ریاست اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس ریاست سے 80 ارکان منتخب ہو کر پارلیمان میں پہنچتے ہیں۔ وزیراعظم مودی کو 2019 کا انتخاب جیتنے کے لیے یو پی کا الیکشن جیتنا ضروری ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اتر پردیش کےانتخابات تک بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کی جانب سے سخت گیر قوم پرستی کے بیانات آتے رہیں گے تاکہ وہ رائے دہندگان کو اپنے حق میں موبیلائز کر سکیں۔ آنے والے دنوں میں اس طرح کےمزید متنازع اور سخگیر بیانات کی توقع کی جا سکتی ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close