دنیا

سو روز بعد میانمار کے حکمران جرنیل محض کنٹرول کا دکھاوا کر رہے ہیں

فوجی حکمرانی کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کی ابتدا کرنے والے ہیلتھ ورکرز نے سرکاری طبی سہولیات کی فراہمی بند کردی ہے اور سرکاری اور نجی بینکوں کے ملازمین سمیت بہت سے سرکاری ملازمین کام پر نہیں آرہے ہیں

یونیورسٹیاں مزاحمت کی آماجگاہ بن گئی ہیں اور حالیہ ہفتوں میں اساتذہ، طلبہ اور والدین نے سرکاری اسکولوں کا بائیکاٹ کیا ہے جس سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا نظام تباہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔

ان کے اقتدار سنبھالنے کے سو روز بعد میانمار کے حکمران جرنیل محض کنٹرول کا دکھاوا کر رہے ہیں۔

بنیادی طور پر آزاد میڈیا کو بند کرنے اور طاقت کے استعمال سے سڑکوں کو بڑے مظاہروں سے پاک رکھنے کی جزوی طور پر کامیاب کوششوں کے ذریعہ برقرار ہے۔

 

تفصیلی آزاد اعداد و شمار کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اب تک 750 سے زائد مظاہرین اور راہگیر ہلاک ہوچکے ہیں۔

2015 میں میانمار ماؤ آن لائن نیوز سروس کا آغاز کرنے والی روم میں مقیم صحافی تھین لی ون کا کہنا تھا کہ ‘فوج (جنتا) چاہتی ہے کہ لوگ یہ سوچیں کہ حالات معمول پر آرہے ہیں کیونکہ وہ اتنے لوگوں کو نہیں مار رہے جتنے پہلے مارے تھے اور سڑکوں پر بھی اتنے لوگ نہیں ہیں جتنے پہلے تھے تاہم ہمیں وہاں موجود لوگوں سے بات کرکے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یقینی طور پر مزاحمت ابھی تک کم نہیں ہوئی ہے’۔

اصل تبدیلی یہ ہے کہ اختلاف رائے اب اتنا دکھائی نہیں دے رہا جتنا کہ احتجاج کے ابتدائی دنوں میں دکھائی رہا تھا جب بڑے شہروں اور قصبوں میں مارچ اور ریلیوں میں ہزاروں افراد شرکت کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار؛ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی خبریں دینے والے 2 صحافیوں کو 7 سال قید

اس ہی دوران آزاد تجزیہ کار ڈیوڈ میتھیسن جو 20 سال سے میانمار کے امور پر کام کر رہے ہیں، نے کہا کہ ‘ان مظاہروں کے انتہائی پُرتشدد ہونے کی وجہ سے بہت سارے لوگ مزید پرتشدد ہونے کو تیار ہیں’۔
ہم اس کے آثار دیکھنا شروع کرچکے ہیں اور صحیح تربیت، صحیح قیادت اور صحیح وسائل کی مدد سے میانمار شہری علاقوں کے متعدد مقامات پر ایک انتہائی تباہ کن مسلح تصادم کا سامنا کرسکتا ہے’۔

دو گروپس، شمال میں کاچن اور مشرق میں کیرن نے، احتجاجی تحریک کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے اور لڑائی کو تیز کردیا ہے جبکہ سرکاری فوج مزید قوت بشمول فضائی حملوں کے ان کو نشانہ بنارہی ہے۔

ایک ماہ قبل اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے اس صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میانمار کی معیشت، تعلیم اور صحت کے انفراسٹرکچر کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے جس سے میانمار کے لاکھوں باشندے معاش، بنیادی ضروریات سے محروم ہورہے ہیں جبکہ غذائی تحفظ کو بھی سنگین خدشات ہیں۔

یہ حیران کن نہیں کہ دی اکانومسٹ میگزین نے اپریل میں ایک رپورٹ میں میانمار کو ایشیا کی اگلی ناکام ریاست قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ افغانستان کی سمت جارہی ہے۔

اقوام متحدہ میں میانمار کے ساتھ طویل تجربہ رکھنے والے سابق امریکی سفیر بل رچرڈسن نے کہا کہ ‘سب سے پہلے حکومت اور اپوزیشن کو تشدد اور خونریزی کے خاتمے کے لیے بات چیت کا آغاز کرنا ہوگا،

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close