دنیا

مسلمان رکن کانگریس الہان عمر اس وقت شدید تنقید کی زد میں

پیر کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں الہان عمر نے لکھا: ’ہم نے امریکہ، حماس، اسرائیل، افغانستان اور طالبان کی جانب سے ناقابل تصور ظلم اور بربریت دیکھی ہے

ہمارے پاس انسانیت کے خلاف جرائم کے تمام متاثرین کے لیے احتساب اور انصاف کا یکساں نظام ہونا چاہیے۔‘
اس ٹویٹ کے ساتھ الہان عمر نے اپنی ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں وہ ایوان نمائندگان میں ایک کمیٹی کی سماعت کے دوران سیکرٹری خارجہ انتھونی بلنکن سے سوال کر رہی ہیں۔

الہان عمر کا یہ بیان اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ مسلح تنازعے کے بعد ہونے والی جنگ بندی کے کچھ ہی ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔ اس پر ان کے مخالفین کے علاوہ ان کی اپنی جماعت کے کچھ ارکان بھی غصے اور ناگواری کا اظہار کر رہے ہیں۔

امریکی ایوانِ زیریں یعنی کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن جیری نیڈلر کی سربراہی میں ایک گروہ نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ’حماس اور طالبان کو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ملانا اتنا ہی ناگوار ہے جتنا یہ گمراہ گن ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’قانون کی بالادستی کے تحت کام کرنے والے جمہوریت پسندوں اور ایسی تنظیموں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں، کے مابین پائے جانے والے فرق کو نظرانداز کرنا گہرے تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔
تاہم جمعرات کے روز الہان عمر نے اس گروپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے اسے شرمناک قرار دیا ہے۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’یہ ان ساتھیوں کے لیے شرمناک ہے جو مجھے تب فون کرتے ہیں جب انھیں میری مدد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اب وہ مجھے فون نہیں کر رہے بلکہ مجھ سے وضاحت طلب کر رہے ہیں۔‘

’اس بیان میں اسلاموفوبیا کا حوالہ جارحانہ ہے۔ مسلسل ہراسانی اور اس خط پر دستخط کرنے والوں کی خاموشی ناقابل برداشت ہے۔
جمعرات کے روز اپنے ایک اور بیان میں الہان عمر نے کہا کہ ان کا مقصد دراصل انتھونی بلنکن سے ان واقعات کے بارے میں سوال کرنا تھا جو عالمی عدالت برائے جرائم میں پیش کیے گئے ہیں۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر اراکین کے گروہ نے الہان عمر کی وضاحت پر لکھا کہ ’ہم الہان عمر کی جانب سے وضاحت کو خوش آئند قرار دیتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل اور حماس اور طالبان کے درمیان کوئی یکسانیت نہیں۔
یہ پہلی بار نہیں کہ اسرائیل مخالف بیان دینے پر الہان عمر کو اپنی ہی جماعت کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہوا۔
سنہ 2019 میں بھی انھوں نے اسرائیل کی حمایت کے پیچھے پیسے کو وجہ قرار دینے کے بیان پر معذرت کی تھی۔

اس کے علاوہ سنہ 2019 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں اسرائیل نے الہان عمر اور ایک اور رکن اسمبلی رشیدہ طلیب کے اسرائیل داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا تھا کہ ان کے ملک کا قانون ایسے لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت نہیں دیتا جو اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اسرائیل کی مبینہ ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر الہان عمر اور رشیدہ طلیب پر یہودی مخالف ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اسرائیل کا قانون ایسے غیرملکیوں کو ملک میں داخلے کی اجازت اور ویزا نہیں دیتا جو اسرائیل کے معاشی، ثقافتی یا تعلیمی بائیکاٹ کی بات کرتے ہیں۔
اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک کو روکا جائے، جسے یورپ اور امریکہ میں بڑھتی حمایت حاصل ہے۔

الہان عمر نے اپنا بچپن کینیا کے تارکین وطن کے کیمپ میں گزارا تھا جہاں ان کا خاندان صومالیہ سے نقل مکانی کر کے پہنچا تھا۔ اس کے بعد وہ ایک سپانسرشپ کی مدد سے امریکی ریاست منی سوٹا پہنچیں۔

سنہ 2016 میں 36 برس کی عمر میں امریکی ریاست منیسوٹا سے ایوانِ نمائندگان کی رکن منتخب ہونے والی الہان عمر امریکی کانگریس کی پہلی مسلمان خاتون ارکان میں سے ایک ہیں۔

وہ امریکی کانگریس کی پہلی رکن ہیں جو حجاب بھی پہنتی ہیں۔

امریکی میڈیا سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار مائیک کیرنووچ نے الہان عمر پر تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’الہان عمر صومالیہ میں پیدا ہوئیں، کینیا میں رہیں اور پھر امریکہ آ گئیں۔ اسرائیل نے ان کے ساتھ کبھی کچھ نہیں کیا۔ وہ یہودیت کے خلاف ہیں اور یہی ان کے جنون کی واحد وجہ ہے۔‘
امریکی مصنفہ بریگیٹی گیبریل نے لکھا: ’الہان عمر اس ملک کے لیے رسوائی ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیں: نسلی اور مذہبی بنیاد پر تفریق کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جاتا ہے: ایچ آر ڈبلیو

اپنی جماعت کے ایک بڑے اور سینئیر گروپ کی جانب سے تنقید کے باوجود ڈیموکریٹ پارٹی کے چند اراکین الہان کے دفاع میں سامنے بھی آئے۔

ڈیموکریٹ رہنما ایانا پریسلے نے لکھا: ’الہان عمر کے بیان کو سیق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش روکی جائے۔ انھوں نے ایک سادہ سا سوال کیا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ’ عالمی عدالت برائے جرائم اسی لیے ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفتیش کرے۔ زرا تصور کریں کہ فلسطینی روزانہ کی بنیاد پر جن چیزوں سے گزرتے ہیں کانگریس اس پر بھی اشتعال میں آتی۔‘

کوری بش نے لکھا: ’الہان عمر پر حملہ بند کیا جائے، ہم پر حملہ بند کیا جائے۔ مجھے حیرت نہیں ہوتی جبکہ ریپبلکنز انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر سیاہ فام خواتین پر حملہ کرتے ہیں لیکن اگر ایسا ڈیموکریٹس کی جانب سے ہو تو یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ ہم آپ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہم سے براہ راست بات کریں۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’سیاہ فام مخالفت اور اسلاموفوبیا اب بہت ہو چکا۔

الہان عمر کے بیان پر امریکی میڈیا پر بھی خاصی گرما گرم بحث ہوئی۔ دا ہل نامی ٹی وی چینل میں ایک پروگرام کے دوران جب اینکر نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ الہان عمر کا بیان یہودیت کے خلاف ہے اور امریکہ کا حماس اور طالبان سے موازنہ درست نہیں تو صحافی رائن گریم نے انھیں بتایا کہ اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو امریکہ کے ہاتھوں پر طالبان، حماس اور اسرائیل سے بھی زیادہ خون خرابہ ہے۔

رائن گریم نے اپنے مؤقف کی حمایت میں مزید کہا کہ ’اگر دنیا بھر میں امریکہ کی جانب سے پیدا کیے جانے والے درد اور تکالیف کو دیکھا جائے تو اس کے مقابلے میں حماس، طالبان اور اسرائیل بہت چھوٹی مچھلیاں ہیں۔‘

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close