بلاگ

مردم شماری ایک بار پھر ملتوی

گذشتہ روز ( پچیس مارچ ) اسلام آباد میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے قومی مردم شماری کے عمل کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔

ایوانِ وزیرِ اعظم کے پریس ریلیز کے مطابق یہ فیصلہ وفاقی شماریاتی ڈویژن کے سکریٹری کی اس بریفنگ کی روشنی میں کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ضربِ عزب کے سبب مردم شماری کے تحفظ و نگرانی کے لیے درکار تین لاکھ فوجی فی الحال دستیاب نہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں آخری مردم شماری 18 برس قبل ہوئی حالانکہ حکومت آئین کے تحت دس برس میں ایک بار مردم شماری کرانے کی پابند ہے۔ اس آئینی پابندی پر سنہ 1981 تک باقاعدگی سے عمل ہوتا رہا تاہم اس کے بعد سے اب تک کے 35 برس میں صرف ایک مردم شماری ( 1998 ) ہو پائی۔

1998 کی آخری مردم شماری کے بعد پچھلے 18 برس میں خانہ شماری و مردم شماری کی کم ازکم دو کوششیں ہوئیں لیکن نتائج ہر بار متنازعہ ہوگئے۔

مردم شماری کسی بھی بہانے ٹلے نقصان عام آدمی کا ہی ہے۔جب یہی نہیں معلوم ہو پائے گا کہ کس صوبے، شہر ، قصبے ، دیہات کی کتنی آبادی ہے اور اس میں مردوں، عورتوں، بچوں، جوانوں، بوڑھوں کی تعداد کیا ہے، کتنے خاندان ہیں اور کیسے کیسے گھروں میں رہتے ہیں اور ان کی آمدن کیا ہے تو اقتصادی و بجٹ ترجیحات ہمیشہ گڑبڑ رہیں گی۔

تازہ انتخابی حلقہ بندیاں نہ ہو پائیں گی۔ پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات کی نشستیں فرضی تخمینوں پر بٹتی رہیں گی

مردم شماری کے لیے پندرہ ارب روپے بھی مختص ہیں۔ شماریاتی عملے کی بھرتی و تربیت بھی ہو چکی ۔ایک لاکھ 66 ہزار سنسیس بلاک بھی تشکیل پا چکے ہیں۔ اگر ہر شماریاتی حلقے میں کم ازکم ایک فوجی بھی تعینات کیا جائے تو کم ازکم ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار سپاہ درکار ہے اور ان کے انتظام و دیکھ بھال کے لیے 20 تا 30 ہزار جونیئر اور سینئر افسر بھی چاہئے ہوں گے۔

فوجی قیادت فی الوقت لگ بھگ ایک لاکھ جوان ہی مردم شماری کے لیے دینے کو تیار ہے۔

بلوچستان اور سندھ میں نادرا اب تک ایک لاکھ 40 ہزار مشکوک شناختی کارڈ بلاک کر چکا ہے ۔ان میں سے 65 ہزار صرف بلوچستان میں بلاک ہوئے ۔زیادہ تر افغان اور بنگالی پناہ گزینوں نے شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں چنانچہ مقامیوں کو خوف ہے کہ غیر ملکی بھی آسانی سے گنتی میں آجائیں گے اور ضم ہو جائیں گے۔

مشترکہ مفادات کونسل کے کل کے اجلاس میں اس متبادل تجویز کو بھی وفاقی شماریاتی ڈویژن نے سیاسی و انتظامی اعتبار سے ناقابلِ عمل قرار دے دیا کہ اگر ملک گیر سطح پر بیک وقت مردم شماری کا عمل ممکن نہیں تو صوبائی سطح پر مرحلہ وار مکمل کرلیا جائے جیسا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کا صوبہ وار عمل مکمل کیا گیا۔

اجلاس میں صوبوں اور وفاق نے جس آسانی سے مردم شماری کے عمل کے غیر معینہ التوا سے اتفاق کیا ہے اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ اگلی مردم شماری شاید 2018 کے انتخابات کے بعد ہی ممکن ہو ۔ کیونکہ یہ عمل فوجیوں کی مطلوبہ تعدداد میں دستیابی اور حالات کی بہتری سے نتھی کردیا گیا ہے اور دلاور فگار کے بقول ،

حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close