اسلام آباد

پاناما لیکس: خط کا جائزہ، اپوزیشن کا اجلاس

پاناما لیکس کی تحقیقات کے سلسلے میں ضوابطِ کار کو حتمی شکل دینے کے لیے حزب مخالف کی جماعتوں کا اجلاس پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن کے گھر پر ہو رہا ہے، جبکہ سپریم کورٹ حکومت کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کے لیے بھجوائے جانے والے خط کا جائزہ لے رہی ہے۔

پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں عدالتی کمیشن اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کرنے سے پہلے پارلیمنٹ سے یا آڈرینینس کے ذریعے قانون سازی کرتے ہوئے ایک ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جو بیرون ملک جا کر وزیر اعظم کے بچوں کی جائیداد کے بارے میں تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ عدالتی کمیشن کو دے۔

پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی دو بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اس بات پر متفق ہیں کہ چونکہ پانامالیکس میں آف شور کمپنیوں کے بارے میں نواز شریف کے خاندان کا نام آیا ہے، اس لیے پہلے مرحلے میں صرف وزیر اعظم کے خاندان کی تحقیقات کی جائیں جبکہ اس فہرست میں شامل دیگر افراد کے خلاف تحقیقات دوسرے مرحلے میں شروع کی جائیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے بارے میں حکومت کی طرف سے لکھے گئے خط کا جائزہ لے رہے ہیں جس کے بعد اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔

اپوزیشن کے اجلاس میں شریک ہونے والی جماعتوں میں پی پی پی اور پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری جماعتوں بشمول جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کا موقف ہے کہ اس فہرست میں شامل باقی ڈھائی سو افراد کے خلاف بھی تحقیقات ایک ہی وقت میں شروع کی جائیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلے پاناما لیکس میں وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا تھا لیکن پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک انتخابی جلسے کے دوران وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا جس کی بنا پر اس جماعت کے پارلیمانی رہنماؤں کو مجبوراً اس مطالبے کو دہرانا پڑا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے ابھی تک وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماوں کا موقف ہے کہ انتخابی دھاندلی کے دوران اُن کی جماعت کی قیادت نے حکومت کا ساتھ دیا تھا جس کی وجہ سے عوام میں اُن کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے اور اگر پاناما لیکس کے معاملے پر بھی لچک کا مظاہرہ کیا گیا تو اُن کی جماعت کو سندھ سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں مزید نقصان ہوگا جس کا پارٹی متحمل نہیں ہوسکتی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماوں کی خواہش ہے کہ پانامالیکس پر وزیر اعظم پر دباؤ ڈالنے کے لیے عوامی رابطوں کو زیادہ سے زیادہ تیز کیا جائے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اس معاملے میں اس وقت تک سڑکوں پر نہیں آئے گی جبکہ عدالتی کمیشن اپنی تحقیقات مکمل نہیں کر لیتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close