دنیا

جے للیتا کا آخری کردار

انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کی وزیر اعلی آخرکار آج زندگی کی جنگ ہار گئیں۔ ان کی عمر 68 سال تھی۔

وہ تین مہینے سے چنئی کے اپالو ہستال میں زیرعلاج تھیں لیکن ان کی بیماری کو غیر معمولی حد تک صیغۂ راز میں رکھا گیا۔ اتوار کو انہیں دل کا دورہ پڑا تھا جس کے بعد ان کی حالت مزید بگڑتی چلی گئی اور وہ پیر کی شب چل بسیں۔

جے للیتا کا شمار ملک کی سب سے رنگا رنگ سیاسی شخصیات میں کیا جاتا تھا۔ ان کے چاہنے والے انہیں ایک دیوی کی طرح پوجتے تھے اور وہ ایک لمبے عرصے سے تمل ناڈو کی سیاست پر چھائی ہوئی تھیں۔

ان کی آل انڈیا انا ڈی ایم کے پارٹی صرف انھی کے نام پر چلتی تھی اور بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے جب ستمبر 2014 میں انھیں وزیر اعلی کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تو ان کے جانشین پنیرسیلوم نے وزیر اعلی کا عہدہ تو عارضی طور پرسنبھالا لیکن ان کی کرسی پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔

مستعفی ہونے کے بعد انہیں تین ہفتے جیل میں گزارنا پڑے تھے۔ اس کیس میں ہائی کورٹ نے انہیں بری کردیا تھا لیکن انھیں بدعنوانی کے کئی دیگر الزامات کا سامنا تھا۔ اس سے پہلے 1996 میں بھی انہوں نے کچھ وقت جیل میں گزارا تھا۔

جے للیتا کی زندگی کا سفر ایک فلمی اداکارہ کے طور پر شروع ہوا تھا۔ انہوں نے سو سے زیادہ فلموں میں ہیروئن کے طور پر کام کیا اور جلدی ہی وہ تمل سنیما کی افسانوی شخصیت ایم جی رام چندرن کے بہت قریب ہوگئیں۔

ایم جی آر نے ہی آل انڈیا انا ڈی ایم کے کی بنیاد ڈالی تھی اور 1987 میں ان کے انتقال کے تقریباً تین سال بعد پارٹی اور حکومت کی ذمہ داری جیا للتا کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ وہ 1991 میں پہلی مرتبہ وزیر اعلی بنیں اور چار مرتبہ اس عہدے پر فائز رہیں۔

تمل ناڈو کی سیاست کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ وہاں ایک بار انا ڈی ایم کے کی حکومت بنتی ہے تو دوسری

مرتبہ اس کی حریف ڈی ایم کے اقتدار میں آتی ہے۔ ڈی ایم کے کی قیادت ام کروناکرن کے ہاتھوں میں جو خود ایک سابق فلم سٹار ہیں۔

 

تمل ناڈو کا شمار ملک کی صف اول کی ریاستوں میں کیا جاتا ہے، وہاں غریبوں کے لیے بڑے پیمانے پر فلاحی سکیمیں چلائی جاتی ہیں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق ریاست کو ترقی کی راہ پر لانے میں جیاللتا نے اہم کردار ادا کیا۔

وہ اپنے حریفوں کی طرح اپنے انتخابی منشور میں ووٹروں کے لیے کچھ غیر معمولی وعدے بھی کیا کرتی تھیں۔ ڈی ایم کے نے اگر ووٹروں کو فری کلر ٹی وی دیے تو انہوں نے کبھی مکسر گرائنڈر تو کبھی لیپ ٹاپ۔

یہ بحث پرانی ہے کہ یہ ووٹروں کو لالچ دینے کی کوشش تھی یا ان کی بہبود کے لیے فلاحی سکیمیں، لیکن ان کی سب سے مقبول سکیم شاید ‘اما کچن’ تھے جہاں غریبوں کو ایک دو روپے میں کھانا دیا جاتا تھا۔

لیکن خود انہیں اس الزام کا سامنا تھا کہ وہ پرتعیش زندگی گزارتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس ہزاروں جوڑی جوتے اور ساڑھیاں تھیں۔ تمل میں ‘اما’ ماں کو کہتے ہیں، اور انھیں ان کے چاہنے والے یہی کہہ کر پکارتے تھے۔

تمل ناڈو میں لوک سبھا کی 40 سیٹیں ہیں اور وہاں کی سیاست کا انداز کچھ ایسا ہے کہ زیادہ تر سیٹیں ایک ہی پارٹی کو حاصل ہوتی ہیں۔

2009 میں انہوں نے قومی سیاست میں زیادہ سرگرم رول ادا کرنے کی کوشش کی تھی اور ان کا نام ممکنہ وزیراعظم کے طور پر بھی لیا گیا تھا لیکن انہوں نےخود کبھی اس خواہش کی تصدیق نہیں کی۔

جے للیتا کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ کبھی جیل تو کبھی شاندار انتحابی کامیابیاں، انہیں شاید ایک ایسے حکمراں کے طور پر یاد کیا جائے گا جس کی سیاسی زندگی بھی فلمی تھی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close