بلاگ

بڑی دیر تو نے کردی صوفی محمد آتے آتے

بلاگر: عمران خان
کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد نے کہا ہے کہ پاک فوج کے خلاف لڑنا حرام ہے، اگر پاک فوج نہ ہوتی تو ملک کب کا تقسیم ہوچکا ہوتا۔ پاک فوج اور ریاست کے خلاف سب سے پہلے مسلح جدوجہد کی شرعی توجیہات پیش کرنے والے صوفی محمد نے نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کلمہ گو مسلمان کو قتل کرنا حرام اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا خلاف شریعت ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں صوفی محمد کے نافذ کردہ نظام شرعی میں ہی سوات کے چوک میں کتنے ہی مسلمانوں کے سرقلم کئے گئے، ان میں کئی ایسے کلمہ گو بھی تھے کہ جن کی لاش اتارنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور کئی دنوں تک لاشیں لٹکتی رہتی تھیں۔ صوفی محمد نے مزید کہا کہ خواتین اور بچوں کو مارنا حرام ہے، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں، انہی کے داماد اور پاکستان کو انتہائی مطلوب ترین ملا فضل اللہ نے سوات کے نواحی اور دیہی علاقوں سے سینکڑوں بچیاں اغواء کیں اور اپنے دہشت گرد ساتھیوں میں جبری نکاح کے ساتھ بانٹ دیں۔

صوفی محمد نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول میں بچوں کو شہید کرنے والے کافر سے بھی بدتر ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والے قتل عام کا ماسٹر مائنڈ ملا فضل اللہ ہی تھا، جبکہ ملا فضل اللہ صوفی محمد کا نہ صرف داماد ہے بلکہ صوفی محمد نے ملا فضل اللہ کو اپنا جانشین اور فرزند بھی قرار دیا تھا۔ اپنے اسی فرزند سے متعلق صوفی محمد مزید گویا ہوئے اور کہا ہے کہ ملا فضل اللہ نے طالبان سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ شامل ہوگیا، حالانکہ ملا فضل اللہ نے اپنی ملک و اسلام دشمن سرگرمیوں کا آغاز طالبان کے پلیٹ فارم سے نہیں بلکہ نام نہاد تحریک نفاذ شریعت محمدی کے پلیٹ فارم سے کیا تھا، جس کے سربراہ یہی صوفی محمد تھے۔ صوفی محمد کا مزید کہنا تھا کہ میں نے وصیت نامہ لکھوایا کہ یہ لوگ (طالبان) خوارج سے بھی بدتر ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو صوفی محمد نے اسلام اور وطن پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس وقت ان خوارج کے خلاف حق بات کہنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی، جب سوات میں اسلام کے نام پہ ان دہشتگردوں نے ظلم و تشدد کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔

صوفی محمد کا مزید کہنا تھا کہ فضل اللہ نے غیر مسلموں سے بھی زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا، صوفی محمد کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ اسلام کو نقصان غیر مسلموں سے زیادہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں نے پہنچایا۔ نفاذ شریعت کی تحریک کا آغاز صوفی محمد نے کیا، فضل اللہ اسی تحریک کے ساتھ، صوفی محمد کا داماد اور جانشین بن کر منظر عام پہ آیا اور صوفی محمد نے بھی اسے اپنا فرزند قرار دیا۔ اب اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ جو فرزندی میں لینے کیلئے درست کا انتخاب نہیں کرسکتا، وہی شخص ملک بھر کے عوام کیلئے نظام تجویز اور نافذ کرنے کیلئے بضد رہا اور اس ضد میں نہ صرف سینکڑوں افراد لقمہ اجل بنے بلکہ پوری دنیا میں وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تشخص کو بھی شدید دھچکا لگا۔ صوفی محمد نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ میرے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی فضل اللہ نے کی، کیونکہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں نے میری تحریک ختم کی، فضل اللہ کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ آج فضل اللہ کیلئے میڈیا کے سامنے سزائے موت تجویز کرنے والا صوفی محمد اس وقت فضل اللہ کے ظالمانہ، دہشتگردانہ اقدامات کی اپنے فیصلوں اور فتوؤں کے ذریعے توثیق کرتا رہا، جب عالمی میڈیا دعوے کر رہا تھا کہ طالبان اور اسلام آباد کے درمیان بس دو پہاڑیوں حائل ہیں۔

اپنی گفتگو میں صوفی محمد نے مزید کہا کہ پاک فوج کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے، اگر فوج نہ ہوتی تو پاکستان کب کا تقسیم ہوچکا ہوتا، یقیناً فوج نہ ہوتی تو پاکستان مزید تقسیم ہوچکا ہوتا، بالخصوص سوات اور جس طرح پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کا سہرا پاک فوج کے سر ہے، اسی طرح وطن عزیز میں نت نئے فسادات اور فتنوں کے بیج بونے کا نمایاں دھبہ صوفی محمد کے اپنے دامن پہ بھی نمایاں ہے، اس دھبے میں بے گناہ لہو کی سرخی اور بارود و فساد کی سیاہی شامل ہے اور اس دھبے کو صاف کرنے کیلئے صوفی محمد کا یہ ایک انٹرویو ہرگز کافی نہیں۔ صوفی محمد دورانِ انٹرویو یوں بھی گویا ہوئے کہ پاک فوج کے جوان ہمارے لئے مجاہدین ہیں اور فوج کی بدولت ملک میں امن قائم ہوا، جیل یاترا سے قبل صوفی محمد کے نظریات اس کے یکسر برعکس تھے۔ ان کی تحریک سے وابستہ بالخصوص ان کے داماد اور جانشین فضل اللہ اور اس کے حواری ہی صوفی محمد کے نزدیک مجاہدین تھے، یہ نام نہاد مجاہدین کسی اور کے نہیں بلکہ پاکستانی ریاست اور اداروں کے خلاف ہی سرگرم تھے، جبکہ ان نام نہاد اور صوفی محمد کے مجاہدین نے جہاد کا باقاعدہ آغاز پولیس اور پاک فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا کے ہی کیا تھا۔ وہی صوفی محمد کہ جنہوں نے نفاذ شریعت کے نام پہ سوات میں بچیوں کی تعلیم پہ دروازے بند کرنے کا آغاز کیا اور اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے انہی کے جانشین فضل اللہ کے ہرکاروں نے سکولوں بالخصوص بچیوں کے سکولز کو نشانہ بنایا اور ہزاروں بچیوں کے تعلیمی سال ضائع ہوئے۔ وہی صوفی محمد اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ملالہ پر جب حملہ ہوا تو وہ اس وقت جیل میں تھے، تاہم یہ حملہ نہیں ہونا چاہیے تھا، میں بچیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہوں اور تعلیمی اداروں پر حملوں کو حرام سمجھتا ہوں، علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔

جن خیالات کا اظہار صوفی محمد میڈیا پہ ابھی کر رہے ہیں، ان کے بیان کی ضرورت اس وقت کہیں زیادہ تھی، جب سوات بدامنی اور لاقانونیت کے تاریک ترین دور سے نہیں گزرا تھا، حالانکہ یہ دور بھی کسی حد تک صوفی محمد کی ہی مرہون منت تھا۔ غور فرمائیں تو صوفی محمد کے طریقہ کار اور میڈیا یا ریاستی اداروں کے طریقہ کار میں ایک خاص قسم کی مماثلت محسوس ہوتی ہے۔ وہ مماثلت ’’پروٹوکول‘‘ یا ’’تعلق‘‘ کے ضمن میں دکھائی دیگی۔ سوات آپریشن سے قبل صوفی محمد کا داماد اور جانشین ملا فضل اللہ تھا جبکہ آج صوفی محمد خود کو بری الذمہ جبکہ فضل اللہ کیلئے موت کا اعلان کر رہا ہے۔ یہاں بھی حالات کچھ اسی طرح کے ہی ہیں، پاک سپہ سالار نے آج ہی دس دہشت گردوں کی سزائے موت پہ عملدرآمد کی توثیق کی ہے، تاہم ہزاروں پاکستانیوں کے قتل کی اعلانیہ ذمہ داریاں قبول کرنے والا احسان اللہ احسان سرکاری مہمان ہے۔ اسی طرح ملا فضل اللہ کو گرفتار یا نشانہ بنانا کے لئے سرجیکل سٹرائیکس سمیت امریکہ و افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پہ تبادلہ خیال جاری ہے، جبکہ اسی فضل اللہ کے باپ، استاد، امیر کو رہائی کا پروانہ تھما کر آزاد کرکے باقاعدہ میڈیا پہ لا بٹھایا ہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ افغان سرحد پہ پاک فوج نے کارروائی کرکے طالبان کے ریڈیو نیٹ ورک یعنی عمر میڈیا کا ٹاور تباہ کر دیا ہے۔؟ آج ہی کے دن اس شخص کو میڈیا پہ آزادانہ رائے کیلئے بٹھایا گیا ہے، جس نے ہر قسم کے آئین و قانون کو مسترد کرتے ہوئے بذریعہ ریڈیو نشریات کا آغاز کیا اور یہی آغاز پاکستان بالخصوص سوات میں امن و آشتی کا اختتام ثابت ہوا تھا۔ میرے لئے تشویش کی بات یہ ہے کہ ریڈیو سے اتنی تباہی پھیلانے والا اب ٹی وی تک پہنچ گیا ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close