بلاگ

کیا امجد صابری دیپک راگ گا لیتا؟

دیپک راگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ منحوس ہے اور جس نے گایا، نہ وہ بچا، نہ ہی وہ محفل جس میں یہ راگ گایا گیا۔

شنید ہے کہ دلی کے اجڑنے سے پہلے کسی شہزادے نے ضد کر کے دیپک راگ گوایا تھا، نہ گانے والا بچا، نہ سننے والے، نہ وہ شہر اور نہ ہی اس کی تہذیب۔

پچھلے دنوں میں نے یہ ہی واقعہ اپنے ایک زیرِ تصنیف ڈرامے میں شامل کیا۔ گائیک کا کردار ادا کرنے کے لیے میرے ذہن میں ایک ہی شخص کا نام آیا، امجد صابری!! کیا اجل اس کے نام کی لوح بھر چکی تھی؟ پچھلے ہفتے جب میں یہ کردار لکھ رہی تھی تو با ر بار توہمات کے کالے کوے میرے ذہن میں شور مچا رہے تھے کہ کیا واقعی اس راگ کے گانے والے نہیں بچتے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا امجد، ہمارے کہنے پہ یہ راگ گا لے گا؟ ظاہر ہے وہ بھی جانتا ہو گا کہ اس راگ کا کیا اثر ہوتا ہے؟

اگر کوئی شخص پاکپتن میں رہتا ہو اور بابا فرید کے مزار کے جوار ہی میں آباد ہو تو خواہ وہ کتنا ہی منطقی اور جدید کیوں نہ ہو جائے، قوالوں، عارفانہ کلام اور توہمات کے سحر سے بچنا ناممکن ہے۔ عزیز میاں قوال، نصرت فتح علی خان، شیر میاں داد، صابری برادران اور ان گنت قوال اس درگاہ پر قوالی کرنے آتے رہتے تھے۔

بچپن میں سمجھ نہیں آتی تھی کہ کاندھوں پہ زلفیں چھٹکائے، نشیلی آنکھوں سے حاضرین کو مسحور کرتے، پان کی دھڑی سے ہونٹ سرخا سرخ، بر میں چمکیلے کرتے، گلے میں مالائیں، سر پہ ٹوپی، انگلیوں میں انگھوٹھیاں پہنے، ہارمونیم بجاتے، یہ کون جادو گر ہوتے ہیں اور الفاظ، راگ اور آواز کا کو ن سا سحر پھونکتے ہیں کہ ہمارے علیگ بزرگ بے ساختہ ہچکیوں، سسکیوں سے رو نے لگتے ہیں؟ دور بیٹھے بیٹھے یہ شریر جادوگر، کون سی رگ دبا دیتے ہیں کہ باریش بزرگ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے تڑپ اٹھتے ہیں؟ کیا راز ہے، جسے سن کے جامہ زیب افراد بھی گریبان چاک کر کے حال کھیل جاتے ہیں؟

سماع کی محفلوں میں لوگوں کو حال سے بے حال دیکھ کر مجھے قوالوں سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ نانک شاہی اینٹوں سے بنے ہشت پہلو مزار اور اس کے گنبدوں کے سائے میں بیٹھے یہ لوگ جو جانے کیا کیا گستاخیاں کرتے تھے۔ خدا کو ’ تو، تڑاخ‘ سے مخاطب کرتے تھے اور نہایت بے تکلفی سے اپنے غموں کو اس کی جھولی میں ڈال کر خود جانے کس عشق کی مئے پی کر مست ہونا چاہتے تھے؟ یہ کون لوگ تھے؟ تاریخ کے کسی ٹھہرے ہوئے دھارے میں منجمد قدیم روایات کے امین۔

وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سمجھ آ گیا، قوالی سن کر رونے والے بزرگ رخصت ہوئے اور اپنے آنسو ہمیں دے گئے۔ وقت نے کب ہمیں پچھلی رو سے اٹھا کے اگلی رو میں بٹھا دیا، کب غلام فرید صابری اور مقبول صابری کی جگہ امجد آ کے بیٹھ گیا۔ معلوم تب بھی نہ ہوا جب امجد نے وہ ہی قوالیاں گانا شروع کیں۔ سر اور ساز کا سفر اسی طرح جاری رہا، جب وہ اس پراسرار انداز میں کہتا کہ، ’یاد رکھو اگر اٹھ گئی اک نظر، جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے‘ تو اسی طرح ہچکی بندھ جاتی اور جانے کون کون سی دکھتی رگ چھڑ جاتی تھی کہ آنسو رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔

ہم سب وقت کے کسی اور دائرے میں جی رہے تھے، اپنے عصر سے کٹے اور ہمارے چاروں طرف ایک اور دنیا پیدا ہو رہی تھی۔ جس دنیا میں کوئی مزار پہ دھاگا باندھ کر امتحان میں پاس ہونے کی دعا نہ کرتا تھا۔

اس دنیا میں ڈگریاں خریدی جاتی تھیں۔یہ دور خود کار اسلحے کا دور تھا،سیل فونوں کا دور تھا، میڈیا کا دور تھا، ملٹی نیشنلز کا دور تھا۔’ ہنوز دلی دور است‘ کہنے والے نطام الدین اولیا کا دور نہ تھا جب ایک فقیر، بادشاہ کی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔

صابری کو مارنے والے احمق تھے، اسے مار نے کے لیے گولی کی کیا ضرورت تھی؟ پہلے فقط وہم تھا، اب یقین ہے کہ اگر وہ دیپک راگ گا لیتا تو نہ بچتا۔ مرنے سے پہلے جو کلام اس نے پڑھا آج سب حیران ہو ہو کے سن رہے ہیں ۔ اتفاقات بھی اسی قبیلے کے ساتھ ہوتے ہیں جس کا نام فنکار ہے۔

امجد صابری چلا گیا، جاتے جاتے اپنے ساتھ بہت کچھ لے گیا۔ اس کا بیٹا بڑا ہو گا، گھرانے کی روایت کو زندہ رکھے گا، نام کمائے گا۔ لیکن وہ اپنی نسل کے لوگوں کے لیے گائے گا۔ جیسے امجد کے والد اپنی نسل کے لوگوں کے لیے گاتے تھے۔ ہماری نسل پہ صابری گھرانے کی قوالی کا دور تمام ہوا۔

سیاست ہو گی، صحافت ہو گی، رقابت بھی ہو گی۔ بہت گرد اڑے گی، کچھ خود کو کوسیں گے، کچھ شدت پسندوں کا ہزار بار پیٹا گیا مردہ پھر سے پیٹیں گے، کہیں فرقہ بندی کا ذکر ہو گا، کہیں برے پڑوسی پہ الزام دھرا جائے گا۔ سب ہو گا امجد نہ ہو گا۔

اصل بات یہ ہے کہ ادیب، شاعر، موسیقار، مصور، اداکار، گائیک یہ سب، وقت کے کسی دھارے میں رہ گئے ہیں۔ ان لوگوں کو آج کا معاشرہ اسی طرح برداشت کرتا ہے جیسے گھر کے کونے میں پڑا کسی بزرگ کا پاندان، صرف دنیا دکھاوے کو رکھا گیا تاکہ دیکھنے والے کہیں کہ بھئی ان کے ہاں بھی کبھی کچھ تہذیب تھی۔

آج فخرِ عالم، مطالبہ کر رہے ہیں کہ فنکاروں کو بلٹ پروف گاڑیاں دی جائیں، گارڈ دی جائے، یہ کیا جائے اور وہ کیا جائے۔ بھولے بادشاہو! بھلا کوئی پرانے پاندان کو بھی بلٹ پروف گاڑی اور گارڈد یتا ہے؟

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close