بلاگ

اقلیتوں سے پاک سر زمین

پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک اقلیت کے مطالبے پر بننے والا ملک اقلیتوں کو تحفظ نہ دے سکا۔

پاکستان کس کا ہے؟ اس سوال کے جواب کا دائرہ تنگ سے تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے جماعت اسلامی اور دائیں بازو کے دیگر حلقوں نے یہ اصرار کیا کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور پھر بتدریج ’مسلمان‘ کا بھی دائرہ تنگ کر دیا گیا۔ یہ عمل آج بھی جاری ہے۔

پاکستان کی ریاست اور ملک کے غیر مسلمان شہریوں کے ساتھ اس کا سلوک کیا رہا ہے یہ ہی موضوع فرح ناز اصفہانی کی نئی کتاب کا ہے۔

’پیور یفائنگ دا لینڈ آف دا پیور‘ نامی کتاب تحقیق اور حقائق پر مبنی ہے اور اس میں پاکستان کے قیام سے لے کر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک کے عرصے پر نظر ڈالی گئی ہے۔

انیس سو سینتالیس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی اقلیتی افراد کی تعداد ملک کی آبادی کا 23 فیصد تھی۔ 1971 میں ٹوٹنے کے بعد موجودہ پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی صرف 3 فیصد کے قریب ہے۔

لیکن اس کتاب سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ سب ایک دم سے فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد نہیں شروع ہوا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے ملک میں اسلامی قوانین رائج کیے اور ان کی حکومت کا فرقہ وارانہ اور جہادی گروہوں کے قیام اور مالی حمایت میں کردار ضرور رہا لیکن اقلیت مخالف سخت گیر رویہ بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔

اس عمل کی تاریخ کے کئی اہم موڑ تھے۔ اول تو وہ کوشش تھی (جو آج تک جاری ہے) کہ محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کو کسی طرح غائب کر دیا جائے۔ یہ وہ تقریر تھی جس میں انھوں نے برصغیر کے نئے ملک کے شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ برصغیر کی حالیہ تاریخ سے سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ تفریق کو ختم کرنا ہوگا چاہے یہ فرقہ، مذہب، نسل، ذات یا پھر کسی اور بنیاد پر ہو۔

بقول ان کے ’آپ آزاد ہیں، آپ کو آزادی ہے کہ آپ اپنے مندروں میں جائیں، آپ مساجد میں جائیں، یا اپنے اور کسی بھی عبادت گاہ میں جائیں۔ پاکستان کی اس ریاست میں۔ آپ کا کسی بھی مذہب یا ذات یا فرقے سے تعلق ہو سکتا ہے یہ ریاست کا معاملہ نہیں ہے (دِس اِز ناٹ دا بِزنِس آف دا سٹیٹ)۔

اس تاریخ کا ایک اور اہم موڑ 1949 میں آیا جب وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قراردادِ مقاصد کا زہریلا تحفہ قوم کو پیش کیا۔

پھر 1953 میں وہ خونی موڑ آیا جب مذہبی حلقوں نے احمدیوں کے خلاف پرتشدد مہم چلائی۔ اس میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے، اور لاہور میں مارشل لا لگانا پڑا۔ اس باب کی اہمیت یہ بھی ہے کہ مذہبی شدت پسند یہ سمجھ گئے کہ اگر وہ اسلام کا نعرہ استعمال کریں اور اپنے حامیوں کو سڑکوں پر نکال دیں تو ریاست ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی۔

پھر آگے چل کر یہ ہی ہوا کہ نہ صرف سرکار ان عناصر کے سامنے بے بس رہی بلکہ اس نے ان کے جارحانہ رویے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ جس کے خونی نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔

یہ ایسی کتاب ہے جو پاکستان کے ہر شہری بالخصوص نوجوانوں کو پڑھ کر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟

کیا کسی کو یاد ہے کہ ملک کا پہلے وزیر قانون ایک بنگالی ہندو تھے یا کہ ملک کے پہلے وزیرِ خارجہ احمدی تھے؟ یا یہ کہ مذہبی منافرت اور تنگ نظری کے خلاف آواز اٹھانے والے سیاستدانوں کا انجام کیا ہوا (حسین شہید سہرودی)؟

اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تاریخ کو تمام ریفرنسز اور تحقیق کے ساتھ تو پیش کیاگیا ہے لیکن انتہائی آسان اور واضح زبان میں۔ مصنفہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک سابق رکنِ قومی اسمبلی ہیں تو شاید ان کے ناقدین یہ کہہ سکتے ہیں کہ نسلی اور مذہبی منافرت کی اس تاریخ میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر لکھتے ہوئے انھوں نے ہاتھ ہلکا رکھا ہے۔

یہ بات کافی حد تک درست ہے لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے کسی فیصلے کو چھپایا نہیں گیا ہے بلکہ اس کی وضاحت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے یہ ایک انتہائی مفید کتاب ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close