Featuredاسلام آباد

ہمیں تاریخ کا ادراک ہے کیسے سیاسی جماعتوں کو متاثر کیا گیا، چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا ہے کہ ہمیں تاریخ کا ادراک ہے کیسے سیاسی جماعتوں کو متاثر کیا گیا، انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، ہم انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔

تفصیلات کے مطابق بلے کے انتخابی نشان کی بحالی کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا3رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

سماعت کے آغاز پر وکیل تحریک انصاف حامدخان نے عدالت کو بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں بیرسٹرعلی ظفروکیل تھے، بیرسٹرعلی ظفرہی دلائل دیں گے، میں نے دیکھا ہے،فیصلہ بہت اچھا لکھا گیا ہے۔

علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وقت کی قلت ہےاس لیےجلددلائل مکمل کرنےکی کوشش کروں گا، آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ آرڈر بھی لکھنا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم صرف جنرل نوعیت کی چیزیں جانناچاہتےہیں، پاکستان میں الیکشن کی شفافیت کم ہی تسلیم کی جاتی ہے، الیکشن کی چھوٹی چھوٹی باریکیوں میں نہیں جائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تسلیم کیاگیاکہ اکبرایس بابرپارٹی کےبانی ممبرہیں، محض آپ کسی کوپسندنہ کریں توممبرشپ ختم نہیں ہوجاتی، کیا ممبران کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا شفاف موقع ملا یا نہیں؟ اس بنیادی سوال کاجواب نہ ہونامشکل میں ڈال سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا پارٹی کے اندر جمہوریت ہے یا نہیں؟

دوران سماعت وکیل تحریک انصاف بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ انتخابی نشان پارٹی کا بنیادی حق ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی، چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے۔ آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی مثال سب سے پہلے ہے، ہمیں تاریخ کا ادراک ہے کیسے سیاسی جماعتوں کو متاثر کیا گیا۔

علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کاذکرنہیں کیا، الیکشن کمیشن کےحکم نامہ میں تسلیم شدہ ہےکہ انٹراپارٹی انتخابات ہوئےتھے، جواب ملنےکےبعدالیکشن کمیشن نےالیکشن کالعدم قراردے کرانتخابی نشان واپس لے لیا۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے32سوالات بھیجےجن کاتحریری جواب دیا، ہمارابنیادی مؤقف تھاکہ درخواست گزارپارٹی ممبرنہیں ہیں۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے20دن میں انتخابات کرانےکاحکم دیا، خدشہ تھاپی ٹی آئی کوانتخابات سےباہرنہ کردیاجائےاس لیےعملدرآمدکیا، پی ٹی آئی نے 2022 میں انٹراپارٹی انتخابات کرائے جوالیکشن کمیشن نےتسلیم نہیں کیے، انٹراپارٹی انتخابات جماعت کےآئین کے مطابق کرائے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی الیکشن کا تنازعہ سول کورٹ میں ہی جاسکتاتھا، پی ٹی آئی کےکسی رکن نےالیکشن چیلنج نہیں کیا، الیکشن کمیشن فیئرٹرائل نہیں دےسکتا،نہ ٹرائل ہوا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین نہ الیکشن ایکٹ2017انٹراپارٹی الیکشن کی اسکروٹنی کااختیاردیتاہے، آئین وقانون کسی پارٹی کوانتخابی نشان سےمحروم کرنےکی اجازت نہیں دیتا، میراپہلانکتہ عدالت کےسامنےیہی ہوگا۔

وکیل تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ میرادوسرانکتہ آئین کاآرٹیکل17ہوگا، الیکشن کمیشن بے ضابطگی کےالزام پرانتخابی نشان واپس نہیں لےسکتا، سپریم کورٹ نےکئی فیصلوں میں آئین کےآرٹیکل17کی تشریح کی، ایک نشان پرانتخاب لڑناہرسیاسی جماعت کاحق ہے۔ انتخابی نشان سےمحروم کرنا سیاسی جماعت،عوام کے بنیادی حق کی نفی ہے۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ میرا پانچواں نکتہ ہےکہ الیکشن کمیشن نے امتیازی سلوک روار کھا، غلط فیصلہ دیا جائے تو اس کاجوڈیشل ری ویوہوسکتا ہے، میرا اگلا پوائنٹ یہ ہےکہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے۔

پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر حقائق کی بدنیتی کا الزام واپس لے لیا

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں تو بتائیں بدنیتی کہاں ہوئی؟ آپ کہتے ہیں الیکشن کمیشن پراسٹیبلشمنٹ کادباؤ ہے تو ثابت بھی کریں، آپ تسلیم کریں مجھےپارٹی الیکشن کرانا ہے۔ پی ٹی آئی وکیل علی ظفرنےالیکشن کمیشن پرحقائق کی بدنیتی کاالزام واپس لےلیا۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیے کہ بنیادی نکتہ الیکشن کمیشن کااختیار،اگروہی نہ ہواتوباقی چیزیں ختم ہوجائیں گی، علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےجن بے ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اس کی نشاندہی کررہاہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے 8لاکھ ارکان پر اعتماد کیوں نہیں؟ آپ کاایک بانی رکن کہہ رہاہے اسے الیکشن لڑنے نہیں دیاگیا، اکبرایس بابرکی سپورٹ نہیں تھی توالیکشن لڑکر ہارجاتے، اس وقت پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ہیں، ایسے میں پارٹی الیکشن کی اہمیت اوربڑھ جاتی ہے، کل وہ نکل کرکہیں کون لوگ ہیں یہ میں تونہیں جانتا۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آپ کے پارٹی آئین سےہی چیزیں نکال کربتائیں، الیکشن کمیشن نے اپنی جانب سے آپکو کچھ نہیں کہا،چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کاغذ کا ٹکڑا پیش کرکے کہا جائے الیکشن ہوگئے، یاتوکہاجائےپارٹی نے الیکشن کرائے ہی نہیں۔ کوئی آئینی اورقانونی حوالہ دیں تومان لیں گے۔

علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بےضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹراپارٹی انتخابات ہوئے تھے۔

پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی،چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن سب ہمارے ادارے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے، ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے تمام اداروں کی ضرورت ہے جن کو مضبوط کرنا ہوگا، اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا، صرف سوشل میڈیا پر الزام تراشی سے ہمارے تمام اداروں کا نقصان ہوتا ہے، پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی۔ اس وقت سب ٹھیک تھا اب پی ٹی آئی کہتی سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close